بلوچستان، بالخصوص مکران میں ایک ہفتہ کے اندر بے رحمانہ بربریت رہی، بلوچ اسکالر پر حملہ کیا گیا اور لا تعداد نوجوان جبری غائب کیے گئے۔ بلوچ وومن فورم

45

بلوچ وومن فورم کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں میں خطرناک اضافے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے مکران خاص طور پر تربت اور پسنی میں حالیہ واقعات بلوچ نسل کشی کی ایک اور سنگین مثال ہیں جس میں بلوچ اسکالر کا بے دردی سے قتل اور نوجوانوں کی بے دریغ جبری گمشدگیاں شامل ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ شریف ذاکر ایک معروف استاد اور اسکالر، متعدد بار حملوں اور ہراسانی کا شکار ہوئے۔ ان کے بیٹے اور کزن کو اغوا کر لیا گیا جو ریاست کی انسانی زندگی کے خلاف کھلی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔

حیات سبزل کو 3 جولائی 2024 کو تربت سے سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ ان کی مسخ شدہ لاش 11 فروری 2025 کو پنجگور میں ملی جس سے ان کے خاندان پر شدید صدمہ طاری ہے۔

اللہ داد ایک نوجوان اور ذہین بلوچ اسکالر جنہیں 4 فروری 2025 کو تربت میں نشانہ بنایا گیا ان کا قتل بلوچ قوم کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

ترجمان نے کہا کہ صرف ایک رات گیارہ بلوچ نوجوان پسنی اور کلانچ (چککُلی) سے جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔

اسماء بی بی جو ایک بلوچ بیٹی ہے اسے 5 اور 6 فروری کی درمیانی شب مقامی مسلح گروہ نے زبردستی گھسیٹ کر لے جانے کے دوران ان کے اہلِ خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ تین دن کی جبری گمشدگی کے بعد عوامی ردعمل میں بلوچستان کے راستے بند کیے جانے کے سبب ان کی ایک زبردستی بنائی گئی ویڈیو منظر عام پر لائی گئی جسے بعد میں جھوٹا ثابت کر دیا گیا تاہم، اسما کی بازیابی کے باوجود اصل مجرم آج بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

ترجمان نے مذید کہا کہ بلوچستان بھر میں بلوچ نوجوانوں، دانشوروں اور اسکالروں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جو بلوچ نسل کشی کا واضح ثبوت ہے۔ ریاست کے یہ اقدامات انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ہم عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ نسل کشی کے خلاف عملی اقدامات کریں اور اس کی مذمت کریں۔