اوتھل ثقافتی میلہ: ایک خاموش نسل کشی ۔ بلوچ خان

1

اوتھل ثقافتی میلہ: ایک خاموش نسل کشی 

تحریر: بلوچ خان

دی بلوچستان پوسٹ

اوتھل، ضلع لسبیلہ کا ہیڈکوارٹر شہر، جو بلوچستان کے کئی علاقوں کو ملاتا ہے۔ یہاں کا موسم تقریباً سال بھر گرم رہتا ہے۔ اوتھل کی خوبصورتی کے بہت سے راز ہیں جو لسبیلہ کی سرزمین بلوچ سرمچاروں کی طرح اپنے سینے میں دفن کرچکی ہے، مگر آج ہم یہاں کی خوبصورتی کے بجائے ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے لوگوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

یہاں اگر لوگوں کی داستانیں بیان کرنا کوئی شروع کرے تو شاید بہت سے لکھاریوں کے قلم شرمندہ ہوں، کیونکہ یہاں صحت سے لے کر عام زندگی کی کسی سہولت کا نام و نشان تک نہیں۔ یہاں آپ کو وہ سافٹ کالونیل فورسز ملیں گی، جن کے بارے میں آپ نے شاید فینن، کیبرال، نگوگی، اچیبے اور غسان کنفانی کی تحریروں میں پڑھا ہوگا۔

لسبیلہ میں جو کالونیل یا کاؤنٹر انسرجنسی کی پالیسیاں استعمال کی جا رہی ہیں، وہ زیادہ تر بلوچستان کے دیگر علاقوں سے قدرے مختلف ہیں۔ مطلب یہ کہ یہاں لوگوں کے دماغوں میں یہ بات بٹھائی جا رہی ہے کہ “آپ لوگ امن پسند ہیں۔” یہی اصطلاح یہاں کے اساتذہ سے لے کر کماش (باثر شخصیات) تک زیر بحث لاتے ہیں، مگر دوسری طرف تعلیم، صحت، اور روزگار کے لیے اگر کوئی شخص اٹھ کر بات کرے تو اسے امن کے بگاڑ کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ جب آپ لاکھڑا سے لے کر بیلہ کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو لوگوں کی زندگیاں افریقی غلاموں سے بھی بدتر نظر آئیں گی۔ یہاں بس لوگوں کے ذہنوں میں “امن” اور “جام صاحب” کے کلمات ڈالے گئے ہیں۔

بچوں کی اکثریت اسکولوں سے باہر کھیتی باڑی میں کام کرتی نظر آئے گی۔ جب یہ بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو پان اور گٹکے کے نشے میں مبتلا ہو کر زندگی بھر قات (یمن میں ایک قسم کا نشہ آور پودا، جسے چبانے سے انسان ہوش و حواس کھو دیتا ہے) کے عادی بنا دیے جاتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو، ایک ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو ارب پتی ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ زیادہ تر عورتیں زچگی کے دوران مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

یہاں ایک اور چیز جو کثرت سے ملتی ہے، وہ این جی اوز کے ادارے ہیں، جو بلوچ عوام کو تھوڑی بہت خیرات دے کر ان کی قوتِ مدافعت کو کمزور بنا رہے ہیں۔ یہ علاقہ ایک جنگ زدہ خطے میں ہونے کے باوجود بلوچ جنگ سے دور رکھا گیا ہے، جسے ریاست اپنا وائٹ زون تصور کرتی تھی۔ آواران جیسے متنازع ضلع کے ساتھ رہ کر بھی یہاں جنگ نہ پہنچ سکی، مگر اتنی گہری نیند کو توڑنے کے لیے 25 اگست 2024 کو کچھ سر فروشوں نے اپنی آخری سانسیں بیلہ کے نام کر دیں۔

جب ماہل بلوچ درہ بیلہ میں داخل ہوئیں تو تمام تر سافٹ پالیسیوں کو ایک زوردار جھٹکے میں برباد کر دیا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہ ہیروف (Heroic Phase) کا پہلا فیز تھا، جس نے پورے لسبیلہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد لسبیلہ کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ یہاں کے لوگوں نے پہلی بار بانُک کریمہ، ماہل، اور رضوان جیسے ہستیوں کی تصاویر اپنے سینوں پر سجائیں اور بلوچستان کی صدائیں بلند کیں۔

یہ وہ وجوہات تھیں جنہیں دیکھ کر ریاست پاگل ہو رہی تھی اور اپنے مہروں میں کچھ تبدیلیاں لانا لازمی سمجھ رہی تھی۔ اس دن کے بعد بہت سے پروگراموں کا آغاز کر دیا گیا، جن میں حالیہ ثقافتی میلہ بھی شامل ہے۔ بیلہ کیمپ پر حملے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا گیا، جس کے اخراجات کا تخمینہ تین ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔ ان پیسوں سے تقریباً پورے لسبیلہ میں تمام تعلیمی اداروں کی مرمت اور اسپتالوں میں ادویات کی کمی کو پورا کیا جا سکتا تھا، مگر ریاست انسانی زندگیوں سے زیادہ اپنی کالونیل سوچ کو تقویت دینا ضروری سمجھتی ہے۔

مگر بات صرف یہیں نہیں رکتی۔ اس پروگرام میں ان افراد کو شامل کیا جا رہا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے بلوچ جہد سے منحرف ہو چکے ہیں یا بلوچ نسل کشی میں براہ راست شریک ہیں۔

دنیا کی دیگر تحریکوں کی طرح بلوچ تحریک بھی بہت سی شیطانی چالوں کو عبور کرتی ہوئی اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہے۔ یہ تحریک ان کنفرادور انٹیلیکچوئلز (غدار دانشوروں) کو بے نقاب کر رہی ہے۔ بلوچ عوام ماضی میں بھی ایسی چالوں کا سامنا کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے، مگر قابض کی ہمیشہ یہی حکمت عملی رہی ہے کہ لوگوں کو چھوٹی قیمت دے کر خریدا جائے۔

ریاست کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ نواب بگٹی کی سرزمین ہے، جہاں لوگ کسی غیر کی عزت کے لیے اپنی ہستی مٹانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔