بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت نے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی سربراہی میں دشت کے اس قبرستان میں پریس کانفرنس کی جوکہ لاوارث افراد کی قبرستان بتائی جاتی ۔
انہوں نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج اس قبرستان میں اس پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ بلوچ قوم اس وقت بدترین ریاستی جبر اور ظلم و ستم کا شکار ہے۔ یہ قبرستان ان مظالم کا گواہ ہے جو بلوچ قوم پر روا رکھے گئے۔ یہاں دفن کیے گئے سینکڑوں بلوچ فرزند وہ ہیں جنہیں ان کی شناخت اور نام کے ساتھ ریاست پاکستان کے فوج اور خفیہ اداروں نے ان کے گھروں، اہل خانہ، اور اہل وطن کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ ان افراد کو طویل عرصے تک انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔ ریاستی جبر کی شدت اس قدر ہے کہ ان نوجوانوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے ان کی شناخت کے ساتھ لے جایا گیا، لیکن ان کی لاشوں کو اس حد تک مسخ کیا گیا کہ ان کے لواحقین انہیں پہچان نہ سکے۔ آج وہی بلوچ فرزند اس قبرستان میں “نامعلوم” کے طور پر دفن ہیں۔ بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں کے قبرستان میں ایسی بے شمار قبریں موجود ہیں جن پر “نامعلوم” درج ہے۔
انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست پاکستان بلوچ قوم کے فرزندوں کو ان کی شناخت کی بنیاد پر چن چن کر قتل کر رہی ہے، ان کے لاشوں کو مسخ کرکے “نامعلوم” کے نام پر دفن کر رہی ہے، اور بچوں سے لے کر بزرگوں تک ہر فرد کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے دوچار کر رہی ہے۔ یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد بلوچ قوم کو ان کی اپنی سرزمین سے مٹانا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی قوانین کے مطابق واضح طور پر “بلوچ نسل کشی” کے زمرے میں آتا ہے۔
گزشتہ سال بلوچ لانگ مارچ کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 25 جنوری کو “بلوچ نسل کشی یادگاری دن” کے طور پر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کا مقصد ان تمام افراد کو یاد کرنا ہے جو بلوچ نسل کشی کی پالیسی کے تحت قتل کیے گئے، جسمانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوئے، اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، یہ دن دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے بھی ہے کہ جس طرح دیگر مظلوم اقوام کی نسل کشی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، اسی طرح بلوچ قوم پر ہونے والے جبر و ستم کو بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ بلوچ نسل کشی کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ بلوچ قوم کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
5 جنوری 2025ء کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کا چوتھا مرکزی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 25 جنوری کو “بلوچ نسل کشی یادگاری دن” کے طور پر منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلوچستان کے شہر دالبندین میں ایک عظیم الشان عوامی جلسہ عام کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس دن کی مناسبت سے بلوچ نسل کشی کے حوالے سے اقوام عالم کو آگاہ کرنے کے لیے مختلف آن لائن مہمات اور تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جبکہ معلوماتی کتابچے اور پمفلٹ بھی شائع کیے جائیں گے۔
یہ دن 25 جنوری 2014ء کے المناک واقعے کی یاد دلاتا ہے، جب بلوچستان کے علاقے توتک میں پاکستانی خفیہ اداروں کے ذیلی ملیشیا (ڈیتھ اسکواڈ) کے خالی کردہ “بلوچ کش کیمپ” سے جبری گمشدگی کا شکار بلوچ فرزندوں کی 100 سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ بلوچ قوم کی قومی یادداشت میں ایک گہرا زخم بن چکا ہے، جو آج بھی ہر بلوچ خاندان، ہر ماں، بہن، بھائی، والد، اور معصوم بچوں کو اذیت میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ توتک کی اجتماعی قبریں اس المیے کی علامت ہیں، اور اس کے شکار خاندان آج تک اپنے پیاروں کی شناخت اور انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے “بلوچ نسل کشی یادگاری دن” کے لیے 25 جنوری کو منتخب کیا۔
آج ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے بلوچستان سمیت دنیا بھر میں مقیم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ 25 جنوری کے یادگاری دن کے لیے تیاریوں کا آغاز کریں۔ بلوچ قوم کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس دن کے لیے بھرپور تیاری کرے اور اس جدوجہد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام زونز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 25 جنوری کو دالبندین میں عوامی جلسہ عام کی تیاریوں کا آغاز کریں۔ بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں میں عوامی موبلائزیشن مہم چلائی جائے، بلوچ نسل کشی کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے مراکز قائم کیے جائیں، اور نسل کشی کے متاثرین اور ان کے خاندانوں سے روابط کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ یہ دن نہ صرف بلوچ قوم کی جدوجہد کا عزم ہے بلکہ دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا موقع بھی ہے تاکہ بلوچ نسل کشی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا سکے اور اس کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جا سکیں۔