ہنگامہ خیز ہفتہ – ٹی بی پی اداریہ

100

ہنگامہ خیز ہفتہ – ٹی بی پی اداریہ

دو ہزار پچیس کے ابتدائی دو ہفتے ہنگامہ خیز رہے ہیں۔ چار جنوری کو تربت میں پاکستان آرمی کے قافلے پر فدائی حملہ ہوا، اور چند دن قبل ضلع خضدار کی تحصیل زہری کے شہر پر بلوچ لبریشن آرمی کے فتح اسکواڈ اور ایس ٹی او ایس نے مربوط حملہ کرکے قبضہ کیا۔ حملے کے دوران لیویز تھانے کو نذر آتش کیا گیا، بندوقیں اپنے قبضے میں لے لی گئیں، اور دس گھنٹے تک شہر پر کنٹرول برقرار رکھا گیا۔ اس قبضے کو آپریشن ہیروف کے دوسرے حصے کی مشق قرار دیا گیا۔

پاکستانی فورسز نے بی ایل اے کے اس مربوط حملے کے بعد حسبِ روایت زہری شہر سے تیرہ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا۔ ان افراد کے لواحقین زہری کراس اور سوراب میں آر سی ڈی ہائی وے کو بند کرکے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج کے باعث کچھ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی ممکن ہوئی ہے۔ کیچ کے مرکز تربت میں بھی کئی دنوں سے فدا شہید چوک پر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا جاری ہے۔

بلوچستان میں ان دو ہفتوں کے دوران جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے، اور بلوچ قوم پرست جماعتیں خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ریاستی ادارے پہلے سے زیرِ حراست افراد کو قتل کرکے انہیں بلوچ جنگجو قرار دے سکتے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کی بازیابی صرف احتجاج کے ذریعے ممکن ہو رہی ہے، اسی لیے عوام سخت اور منظم احتجاج کے ذریعے جبری گمشدہ افراد کی رہائی اور ریاستی جبر کے خلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی کے مربوط اور پیچیدہ حملوں میں شدت آنے کے ساتھ ہی ریاستی جبر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی ادارے بلوچ مسلح تنظیموں کے مہلک اور ہلاکت خیز حملوں کو روکنے میں ناکامی کے ردِعمل میں عام لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کر رہے ہیں اور پہلے سے زیرِ حراست افراد کو قتل کر رہے ہیں۔ تاہم، ریاستی جبر کے خلاف قومی تحریک نے عوام کو منظم کیا ہے، اور اب عوام ان مظالم کے خلاف خاموش رہنے کے بجائے ریاستی اداروں کے خلاف سخت احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔