جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ کا احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 5711 ویں روز جاری رہا۔
آج کوئٹہ سے سیاسی سماجی کارکنان ریحان بلوچ ، نور احمد بلوچ، ظفر بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کو حکومت میں لانے کا مقصد بھی بلوچ نسل کشی میں اپنے لئے دست راست کا انتظام کرتا تھا ۔ اور اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ایک بہت خونی آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی شروعات کے لئے راہ ہموار کیا جارہا ہے اور جس کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ایک طرف ریاست اپنے گماشتہ اور دوسری طرف اپنی گماشتوں ڈیتھ اسکواڈ کرائے کے قاتلوں کے ساتھ مل کر سیلیکٹو جینو سائیڈ کے ذریعے بلوچ قوم کے باصلاحیت پڑھے لکھے نسل جو کہ معاشرہ کے کریم کہلاتے ہیں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے شہید کیا جاتا ہے ۔ یا جبری اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناکر شہید کر کے پھینک دیتے ہیں۔ یا پھر اجتماعی قبروں میں گاڑھ دیتے ہیں۔ جن کی خبر دنیا کو نہ پکڑے اور پاکستان اسی طرح اپنے غیر قانونی و غیر اخلاقی غیر انسانی اعمال کو جمہوری اسلامی ریاست کے نام پر چھپائے ہیں مگر دنیا کے مہذب ممالک کو پاکستان کی اصلیت کا علم ہونے کے باوجود بھی ان کی پاکستان کے ساتھ ان کے مفادات دیر پا نہیں ہو سکتے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اگر پاکستان یہ سمجھتی ہے کہ نہتے اور بلوچوں کو شہید کر کے وہ بلوچ کی نسل کو دنیا سے ختم کرے گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ سر زمین کی سرحدوں کی حفاظت اور قومی بقاء کی جنگ قوموں کو ختم نہیں کر سکتی بلکہ غلام رہ کر فوجی زمین ریاست اور قومی ثقافتے قومی زبان کو داؤ پر لگانے سے قو میں ختم ہوا کرتی ہیں۔