بلوچستان میں پولیس کی جانب سے کتاب اسٹالز پر کریک ڈاؤن، چار بلوچ طلباء کی غیر قانونی گرفتاری، اور ان پر مقدمات درج کرنے کے خلاف طلباء نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالیں۔
گوادر میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے کتاب کاروان کے تحت قائم کتاب اسٹال پر پولیس حملہ، تشدد اور طلباء گرفتاریوں کے خلاف بلوچ طلباء کی جانب سے تربت، گوادر، کوئٹہ، اور ڈیرہ مراد جمالی میں بلوچ طلباء کی بڑی تعداد نے ریلیاں نکالیں اور احتجاج کیا۔
مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے گرفتار طلباء کی فوری رہائی اور ان پر درج مقدمات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
گوادر میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام مظاہرے میں طلباء نے پولیس کے کتاب اسٹال پر چھاپے، ہراساں کرنے، اور گرفتاریوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
طلباء کا کہنا تھا کہ علم کے فروغ کی کوشش کو جرم قرار دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔
تربت یونیورسٹی کے طلباء نے بھی احتجاجی ریلی نکالی، جس میں طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی، مظاہرین نے کتابوں کی ترویج کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کی مذمت کی اور طلباء کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اس دوران طلباء کی جانب سے کوئٹہ اور ڈیرہ مراد جمالی میں بھی احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے، جہاں مظاہرین نے حکومت اور پولیس کے اس رویے کو علم دشمنی قرار دیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کہا کہ “بلوچستان کتاب کاروان” کے ذریعے کتابوں کے مطالعے کو فروغ دینے کی مہم پر حملے اور طلباء کی گرفتاری ریاستی جبر کی مثال ہیں۔
تنظیم نے مزید کہا کہ کتابوں کی ترویج کو روکنا علم دشمنی کی انتہا ہے اور اس کے خلاف تحریک جاری رہے گی۔
واضح رہے کہ گوادر میں پولیس نے کتاب اسٹال پر چھاپہ مار کر طلباء کو ہراساں کیا، گرفتار کیا، اور ان پر جھوٹے مقدمات درج کیے۔
ان واقعات کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں طلباء و عوام کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔