ڈیلٹا سینٹر، شہید رسول جان سے ایف سی کیمپ تک
تحریر: یاسر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ڈیلٹا سینٹر، جو ایک زمانے میں علم و ادب، بلوچی ثقافت، معیاری تعلیم، انگلش زبان کی تدریس اور طلبہ کی ذہنی و فکری تربیت کے حوالے سے مشہور ہوا کرتا تھا، آج ایف سی اہلکاروں اور کمانڈوز کے مراکز کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، جس کی ذمہ داریاں برکت اسمائیل کے بھائی مراد اسمائیل سرانجام دے رہے ہیں۔
یقیناً تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اور بلوچستان جیسے علاقے میں، جہاں ریاست تعلیم پر پابندیاں عائد کر چکی ہے، کتابوں کو قید کر دیا گیا ہے، طلبہ کو کتابیں بھیجنے پر پابندیوں کا سامنا ہے، اور انہیں پابند سلاسل کیا جاتا ہے، وہاں تعلیم کے خلاف بولنا یا لکھنا کوئی معقول رویہ نہیں ہو سکتا۔
لیکن جہاں تعلیم کے نام پر ریاستی قبضے کو تقویت دی جائے، ایف سی جیسے ایک قاتل ادارے کو بلوچ بچیوں اور بچوں کے سامنے نارملائز کرتے ہوئے حفاظتی ادارے کے طور پر پیش کیا جائے، اور طلبہ کی ذہن سازی کرکے انہیں ایف سی جیسے بلوچ دشمن ادارے میں بھرتی ہونے پر آمادہ کیا جائے، تو یہ کسی بھی باشعور انسان کے لیے المیہ ہوگا۔
ڈیلٹا سینٹر ان تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا تھا جس نے بلوچستان اور خصوصاً مکران میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب سے بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد شدت اختیار کر چکی ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان اس جدوجہد میں شامل ہو رہے ہیں، ریاست نے چند مفاد پرست افراد کو خرید کر تعلیمی اداروں کو اپنے بیانیے کے فروغ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
ایک وقت تھا جب ڈیلٹا سینٹر سے نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت کی امید کی جاتی تھی، لیکن آج یہی ادارہ بلوچ عوام سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ ان کے بچوں کو ایف سی کیمپ اور دیگر بلوچ دشمن اداروں کے سامنے لے جانے سے باز رہیں۔
مراد اسمائیل جیسے افراد، جو تعلیم کے نام پر گھناؤنے کھیل میں شامل ہیں، بلوچ عوام ان کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ افراد اپنی ذاتی مفادات کے لیے ریاست کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کے ساتھ غداری کر رہے ہیں۔ ایف سی کے ساتھ طلبہ کی ملاقات کروانا کسی تعلیمی سرگرمی کا حصہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ایف سی میں تعلیم کی بنیاد پر بھرتی نہیں ہوتی، بلکہ یہ ادارہ تعلیم کے لحاظ سے سب سے پسماندہ تصور کیا جاتا ہے۔
ڈیلٹا سینٹر کی حالیہ سرگرمیاں، جن میں ایف سی کے بیانیے کو فروغ دینا شامل ہے، ایک بڑے المیے سے کم نہیں۔ بلوچ دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہے، جو ایک افسوسناک امر ہے۔
بلوچ اساتذہ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ اسی بلوچ سماج کا حصہ ہیں، جسے ہر روز ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں سب سے زیادہ نشانہ تعلیم یافتہ طبقہ بنا ہے۔ درجنوں طلبہ ریاستی اداروں کی قید میں ہیں، اور حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کو دن دہاڑے قتل کیا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں، ڈیلٹا سینٹر کا بلوچ طلبہ کو ایف سی کیمپ لے جانا، جہاں ان کا برین واش کرکے ایف سی میں بھرتی ہونے پر آمادہ کیا جاتا ہے، کسی بھی بڑے المیے سے کم نہیں۔ بلوچ اساتذہ کو ان اقدامات کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا ہوگا تاکہ مراد اسمائیل جیسے افراد بے نقاب ہو سکیں۔
ڈیلٹا سینٹر ایک ایسا ادارہ رہا ہے، جہاں شہید رسول جان جیسے عظیم اساتذہ نے پڑھایا اور طلبہ نے مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن آج یہی ادارہ ایف سی کے جبر کا آلہ کار بن چکا ہے، اور بلوچ طلبہ کی شناخت اور پہچان چھیننے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
بلوچ قوم ڈیلٹا سینٹر کی ان سرگرمیوں کو ناپسند کر رہی ہے اور اسے قومی دشمنی کے زمرے میں تصور کر رہی ہے۔ اگر ڈیلٹا سینٹر اور خاص طور پر مراد اسمائیل نے اپنی یہ سرگرمیاں بند نہیں کیں، تو بلوچ عوام اس ادارے کا بائیکاٹ کر سکتی ہے۔
تعلیم کو بلوچ قوم کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیلٹا سینٹر کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی ہوگی، ورنہ بلوچ عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔