نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے(حصہ سوم) ۔ رامین بلوچ

142

(نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے (حصہ سوم
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیشنل پارٹی اپنے غیر نظریاتی اعمال کے پیش نظر بلوچستان میں اپنی طبعی سیاسی عمر پہلے ہی پوری کر چکی ہے اور بلوچ سیاسی افق پر اپنے وجود کو منوانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آج ہر بلوچ جانتا ہے کہ نیشنل پارٹی بلوچ دوست جماعت نہیں، بلکہ اس کا سیاسی پس منظر پاکستانی فوج اور ان کے کاسہ لیسی سے آلودہ ہے۔ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے یارانہ تعلقات، تعاون اور روابط کی کہانیاں کوئی ڈھکی چھپی پوشیدہ دیومالائی کہانی نہیں ہیں، بلکہ ان کے سیاست کے تانے بانے کا یہی ایک ہی “چوکھٹ” ہے، جس پر وہ سجدہ ریز ہیں۔

اگر نیشنل پارٹی کے حالیہ دورہ چین کے مرکزی مقاصد کا سنجیدہ تجزیہ کیا جائے کہ وہ چین جا کر کس ایجنڈے کو لے کر گئے تھے، تو یہ بات واضح اور مستند ہے کہ نیشنل پارٹی کے وفد نے اپنے “گیارہ روزہ دورے” میں بیجنگ حکومت کے سامنے جھولیاں پھیلائیں، کہ پاکستانی فوج پر زور دے کہ بلوچستان میں اقتدار نیشنل پارٹی کو سونپ دیا جائے اور ڈاکٹر مالک کو وزارتِ اعلیٰ سپرد کی جائے، تاکہ بلوچستان میں “چینی انفراسٹرکچر”، بالخصوص سی پیک سمیت چین کے اقتصادی چکر کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ وفد نے اس بات پر چینی حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر نیشنل پارٹی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے گی تو چینی منصوبوں کو سیکیورٹی اور استحکام ملنے کے ساتھ بلوچستان میں جاری چینی منصوبہ جات اور پراجیکٹس کی سست رفتاری اور گراوٹ میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ نیشنل پارٹی کی حکومت سی پیک کے لیے “سافٹ کارنر” ثابت ہو گی، کیونکہ نیشنل پارٹی بلوچستان کے حقیقی نمائندہ جماعت ہے اور اس کے “Mass Roots” مضبوط اور گہرے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں، اور اس اعتماد کے ساتھ میں یہاں نیشنل پارٹی کے دورہ چین کو ایکسپوز کرنا چاہوں گا کہ ان کے ترجیحات میں بلوچستان میں کٹھ پتلی حکومت کی سپردگی سرفہرست ایجنڈا رہا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے فیس بک آفیشل پیج پر یا ریاستی میڈیا جو بیانیہ دے رہے ہیں، اس کے ساتھ ان کا یہ ایجنڈا مشروط طور پر اولیت رکھتا ہے۔ آف دی ریکارڈ معاہدات اور بات چیت کا غیر رسمی نکتہ اول یہی ہے کہ نیشنل پارٹی کو اقتداری شراکت میں اہم حصہ دیا جائے۔ اور یہ ان کے واپسی دورہ کے بعد متعدد بیانات سے واضح ہے کہ ان کے دورہ چین کے پس پردہ مقاصد کیا تھے؟ ایک مثال ہے کہ “جب بلبلہ پھٹتا ہے تو جواری ننگے ہو جاتے ہیں”۔ یہی حال ان بے چاروں کا ہے جو کٹھ پتلی اقتدار کے لیے چینی حکومت کے آگے اپنی سر پر راکھ ڈال کر، منتیں اور جھولیاں پھیلاتے ہیں۔

مندرجہ بالا صورتحال اور معلومات سے عمومی نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نیشنل پارٹی اپنی روزی روٹی کے چکر میں دلالی کے ہر مکروہ عمل کو عبور کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیشنل پارٹی ایک مافیا انٹرپرائز بن چکا ہے، جن کے دامن بے شمار بدنام دھبوں سے داغدار ہیں۔ اور یہ سیاسی مافیا ایک بار پھر مجرمانہ طریقے سے چین سے مشروط سیاسی لین دین اور لو، دو کی پالیسیوں پر ممکنہ تعاون کے طلبگار ہے۔

حالانکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی طاقت، فعالیت اور بلوچستان کی جنگ زدہ، متنازعہ اور مقبوضہ حیثیت کے باوجود اس طرح کی سٹہ بازی کے لیے خود کو پیش کرنا حیران کن ہی نہیں، بلکہ غیر اخلاقی، غیر سیاسی اور غیر نظریاتی عمل ہے۔
نیشنل پارٹی کے لیے یہ سودا بہت مہنگا اور غیر فائدہ مند ثابت ہوگا۔ ان کے یہ مکروہ کردار بلوچ سیاسی، تحریکی، نظریاتی اور سفارتی اقدار کے خلاف ہیں، اور اس کے ممکنہ نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔ نیشنل پارٹی بلوچ تحریک آزادی کے تیز رفتار پیش قدمیوں میں ٹشو پیپر کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا، جیسے کہ “سمندر کے پانی سے خالص خوردنی نمک نکالنا یا ریت کے ذروں سے سونا نکالنا” کی مصداق ہو گا۔ سمندر سے خالص خوردنی نمک نکالنا ایک پیچیدہ اور وسیع تکنیک، منطق، مہارت اور سائنسی سمجھ بوجھ کے ساتھ ہونے والا میکانکی عمل ہوتا ہے، جب کہ نیشنل پارٹی اتنی آسانی سے ان متنازعہ اور ماورائے بلوچ مرضی معاہدات کو عملی جامہ پہنانے کا ٹھیکہ لینا چاہتا ہے، جیسے کہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہیں۔

نیشنل پارٹی کی حیثیت بلوچ تحریک کے رو سے “زیرو ٹالرنس” پر ہے۔ اس سے کوئی گاجر کی قیمت بھی نہیں پوچھتا۔ اس کی کیا حیثیت اور اختیار ہے کہ بلوچ سرزمین کے حوالے سے کسی بیرونی توسیع پسند ملک کے معاہداتی عمل میں شریک ہو؟

نیشنل پارٹی کے مکروہ اعمال کی بار بار وضاحت کا مقصد یہی ہے کہ اگر وہ بلوچستان کے متنازعہ حیثیت کے باوجود ممکنہ طور پر کسی ایسے معاہدے کا حصہ بن بھی جاتے ہیں، تو ان کے کٹھ پتلی فیصلوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ یہ کورے کاغذ کے معاہدے محض علامتی ہوں گے۔ ان کا کوئی زمینی، قانونی اور تحریکی حیثیت نہیں ہوگی، کیونکہ جدوجہد آزادی ایک عبوری ریاست کے مرحلے سے گزر کر مستقبل کی آزاد ریاست کی تعمیر کا نعم البدل ہوتی ہے۔

اگر ہم نیشنل پارٹی کی منافقت، آزادی کی جدوجہد سے منحرف کردار، بلوچ نسل کشی میں حصہ داری، یا مجرمانہ خاموشی کو نظر انداز کریں، تو ہم آنے والی نسلوں کے سامنے جوابدہ ہوں گے کہ ہم جانتے بوجھتے مروت میں بلوچ ہونے کے خاطر ان کے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر تاریخی بے ایمانیوں میں شمار کئے جائیں گے۔ یہ نیشنل پارٹی کی روایتی ذہنیت اور فطرت رہی ہے کہ بلوچستان میں کٹھ پتلی اقتدار کے حصول کے لیے ہر سستے دام پر یہ خود کو بیچنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

ڈاکٹر مالک اپنے دور حکومت میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے اور ان سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے بلوچ آزادی دوست قوتوں کے خلاف آپریشن “ضرب عضب” کا باقاعدہ اعلان کر کے ریاست کے عسکری قوتوں کے آشیر باد سے حکومت میں آئے، کیونکہ ریاست کو ایسے بے ضمیر طبقے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی قبضہ کو کٹھ پتلی پارلیمنٹ یا پارٹی کے ذریعے جواز فراہم کر سکے۔

حالانکہ نیشنل پارٹی کے دور میں جتنے کرپشن ہوئے، شاید کسی اور کے دور میں نہ ہوئے ہوں، لیکن بلوچ آزادی دوست قوتوں کے خلاف ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے کردار کے پیش نظر ان کے تمام تر جرائم اور گناہ معاف کر دیے گئے اور وہ اس لئے محتسب نہ ٹہرے کہ انہوں نے بلوچ نسل کشی میں ریاست کے ہم راہ رہے۔

نیشنل پارٹی سے اختلاف میرے لیے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ان کی بلوچ دشمنی اور وطن دشمنانہ کردار کے تناظر میں ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے دور حکومت میں بلوچ نوجوانوں کی آٹھ سو سے زائد مسخ شدہ لاشیں ملی اور ہزاروں جبری گمشدگیوں کا شکار بنائے گئے۔ ماؤں کے بہتے آنسو اور ان کے لخت جگر کی گمشدگی، اور نسل در نسل دہائیوں سے جاری بلوچ تحریک آزادی کے سنہری اور خونچکان روایات کو پس پشت ڈال کر ریاستی نسل کش پالیسیوں میں شراکت دار رہے۔

نیشنل پارٹی کی اقتداری کاسہ لیسی، کمیشنز اور دلالی کے عوض اپنی خدمات پیش کرنے کے دورہ چین اور ملاقاتیں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی قبضہ اور چین کی لوٹ مار کو جواز فراہم کرنے کی ناممکن کوشش ہے۔

یاد رکھیں، کوئی بھی سامراجی طاقت ان کے ناپاک منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

ہمیں کامل یقین ہے کہ بلوچ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ان کے لہو کی آبیاری سے جاری آزادی کی تحریک اپنی منزل ضرور حاصل کرے گی۔ جنگ جب فیصلہ کن اور مسلسل عمل سے گزرتی ہے تو اپنے مقصد کے تعین کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ تب اسے کوئی بھی سامراجی و استعماری طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ ایسی ناقابلِ شکست جدوجہد ناگزیر طور پر قربانیوں کے مسلسل عمل کے نتیجے میں اپنے منطقی اہداف ضرور حاصل کرتی ہے، چاہے ریاست اور اس کے کارپوریٹ میڈیا، کٹھ پتلی پارلیمنٹ، کٹھ پتلی عدلیہ، سیاسی مافیاز جتنی بھی پروپیگنڈہ کریں، جبر و بربریت جاری رکھیں، نسل کشی کریں۔

لیکن یاد رکھیے، کسی شہید کی سانس تھم جانے یا جسمانی طور پر بچھڑ جانے سے تحریک کمزور اور سست نہیں ہو سکتی۔ بلکہ شہیدوں کے لہو میں شامل انقلابی روح، ان کی تعلیمات، ان کی شعوری قربانیاں، نظریات، تجزیات، لائحہ عمل، حکمتِ عملی، تاریخِ آزادی کے بہاؤ کے مناظر کو اور حسین اور جاندار بنا دیتی ہیں۔ شہیدوں کی نظریاتی گونج، ان کی جرات، ان کی قربانی، ان کا فدائیانہ عمل، ان کی جفاکشی اور بے لوث کردار اور ان کے ساکت اجسام کی کوکھ سے ایک نئی نسل کا جنم ہوتا ہے۔ اور یہ جنم در جنم کا عمل آزادی کے منطقی حصول تک جاری رہتا ہے۔

یہ فطرت کے قوانین ہیں کہ ہر حیاتی وجود اپنی اجتماعی بقاء کی جنگ لڑتا ہے، اور ہر حیاتی وجود پروٹوپلازم کے بقاء کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ حیات یعنی زندگی کا محور پروٹوپلازم ہے، اور کائنات کا محور توانائیاں ہیں جو خلا کے ہاتھوں تباہ ہونا نہیں چاہتیں۔ اور یہ یقینی ہے کہ پروٹوپلازم ایک جاندار خلیے کے لیے زندگی کے لیے اہم ہوتا ہے۔ “ہیگل کہتا ہے کہ تاریخ کا سفر درحقیقت آزادی کے حصول کا سفر ہوتا ہے تاکہ قومیں اپنی بقاء اور آزادی کو قانونی تحفظ دے سکیں اور اسی خاطر ریاست وجود میں آئی۔”

نوٹ: اگلی قسط میں ہم چین کی موجودہ معاشی ترقی اور مارکیٹ اکانومی کا جائزہ لیں گے۔ یہ ترقی نظریاتی، فطری، سرحدی، قدرتی تناظر کا پیش خیمہ ہے یا توسیع پسندی، قبضہ گیری، لوٹ مار یا سامراجی و استعماری پالیسیوں پر مبنی ہے یا کچھ اور؟
(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔