نیشنل پارٹی دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے –( حصہ ہشتم) ۔ را مین بلوچ

128

نیشنل پارٹی دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے –( حصہ ہشتم)

تحریر: را مین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں موجودہ قدرتی وسائل کا استحصال صرف قیمتی معدنیات تک محدود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بحر بلوچ اور دیگر علاقوں کے ریت اور بجری جیسے بنیادی قدرتی وسائل اور تعمیراتی مواد بھی چین کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں چین کی کئی مائننگ کمپنیاں مقامی دلالوں کے ساتھ خفیہ کان کنی اور پروسیسنگ کے عمل میں شریک ہیں، اور انہیں خفیہ طریقے سے مقامی افراد کے نام پر کان کنی کے ٹھیکے دیے گئے ہیں۔ اس میں اندر طلب چین سرمایہ کاری کر رہا ہے، اور ان وسائل کو خفیہ طریقے سے فوجی کانوائیوں کی شکل میں لے جایا جا رہا ہے۔ اس کے متعدد مستند شواہد موجود ہیں۔ یہ چین کی اقتصادی و معاشی طاقت اور توانائی کے شعبوں اور صنعتوں میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں، جس سے چین کی اقتصادی ترقی کو بہت زیادہ سہارا مل رہا ہے۔

بلوچ وسائل کی اس بے دردی سے لوٹ مار میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ، کٹھ پتلی حکومت، اور مقامی سیاسی پارٹیاں، بشمول نیشنل پارٹی اور دیگر کئی نیٹ ورکس، حصہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ وطن کے سمندری وسائل، خاص طور پر مچھلی کے ذخائر، کا بھی چینی کمپنیاں بڑی مقدار میں استحصال کر رہی ہیں۔ چینی کمپنیاں گوادر اور پسنی میں ماہی گیری کے عمل کو صنعتی سطح پر انجام دے کر بڑے چینی ٹرالرز کے ذریعے مچھلیوں کا شکار کر رہی ہیں۔ ان کے بڑے جال سمندری ماحول کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔

جہاں بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا سامان کرتے تھے، چینی ٹرالرز نے ان سے ان کا واحد ذریعہ معاش چھین لیا ہے، جو بلوچ ماہی گیری معیشت کا بڑے پیمانے پر نقصان ہے۔

سمندری وسائل بحر بلوچ کے آس پاس بلوچ آبادی کی معیشت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے ذریعے چند گھنٹوں کے سفر میں سو کلو تک مچھلی پکڑ سکتے تھے۔ لیکن ان چینی فشنگ ٹرالروں نے انہیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ بمشکل اپنے اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔

فشنگ ٹرالرز میں جال پھینکنے اور کھینچنے کے لیے بھاری مشینری استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایک مخصوص قسم کے بڑے جال ہیں جو طاقتور انجنوں اور دور تک گہرے سمندر میں طویل عرصے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ جال نہ صرف مچھلیوں اور جھینگوں بلکہ چھوٹی مچھلیوں، انڈوں، اور ان کی آماجگاہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، جو مچھلی کی نسل کشی کا باعث بن رہا ہے۔

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ایک عالمی ادارے World Wide Fund for Nature نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ٹرالنگ کے آلات سمندر کی تہہ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ سمندر میں جھاڑو پھیرنے اور سطح کو “ہل” کی طرح کھودنے کا باعث بنتے ہیں، جس سے آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔

بلوچستان کے معدنی وسائل کا چین کی صنعتی ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ یہاں کے معدنی ذخائر نہ صرف چین کو ضروری خام مال فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان ذخائر کا استعمال چین کی مختلف صنعتوں میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ معدنیات الیکٹرانک آلات، ٹیکنالوجی، مینو فیکچرنگ، اور تعمیرات سمیت دیگر شعبوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔

سیندک منصوبے سے روزانہ ہزاروں ٹن دھاتیں اور خالص سونا نکالا جا رہا ہے، جس سے چین اپنی سامراجی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ چین بلوچستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے بھی سرگرم ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے، جس سے زمین کی ساخت اور زیر زمین پانی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

چین گزشتہ پچیس سالوں سے جس “معاشی ترقی” کا شور مچا رہا ہے، وہ درحقیقت کمزور اقوام کے قدرتی وسائل کے استحصال پر مبنی ہے۔ بلوچ تحریک آزادی اور مزاحمتی کارروائیاں اس لوٹ مار کے خلاف ایک مضبوط چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ سی پیک اور دیگر منصوبے چینی سامراج کے لیے ایک آزمائش بن چکے ہیں، اور حالیہ مزاحمتی حملوں نے ان منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور سی پیک کا کام کسی حد تک رک گیاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں سی پیک اور چین کے دیگر استحصالی پروجیکٹس نہ صرف بلوچستان میں حساس منصوبہ بن چکے ہیں،۔ بلکہ عالمی سطع پر بعض ممالک میں ان سامراجی منصوبوں کے خلاف شدید تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ اور بلخصوص بلوچستان میں اسے جغرافیائی، سیاسی اور گوریلا جدوجہد جیسے سیکورٹی چیلنجز کا سامناہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔