نیشنل پارٹی دورہ غداری اور لوٹ مار کے معاہدے – (حصہ ہفتم) ۔ رامین بلوچ

122

نیشنل پارٹی دورہ غداری اور لوٹ مار کے معاہدے – (حصہ ہفتم) 

تحریر رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

(یہ تحریر بنیادی طور پر نیشنل پارٹی کے چین سے کیے گئے معاہدات پر مرکوز ہونی چاہیے تھی، لیکن تحریر کی طوالت کی وجہ سے میں قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ اب یہ تحریر ”چین کے عالمی سامراجی عزائم اور بلوچ وطن کے تناظر“ میں لکھی جا رہی ہے۔ اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے کہ چین کی ان سامراجی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جائے جو بلوچ وطن سمیت مختلف خطوں میں اپنا پنجہ گاڑھ رہا ہے۔ میری ذاتی خواہش ہے کہ قارئین کو چین کے توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کروں، جس کی ترقی کا اتنا واویلا ہے۔ اس ترقی کے پیچھے چھپے سامراجی حربوں کو مکمل بے نقاب کرنا مقصود ہے۔ چین کے سامراجی عزائم سے آگاہی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی پالیسیاں نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ بلوچ وطن کی آزادانہ حیثیت اور داخلی معاملات میں مداخلت بھی شامل ہیں۔)

چین کی قبضہ گیرانہ پالیسیوں کا دائرہ کار صرف مشرقی ترکستان (سنکیانگ) تک محدود نہیں، بلکہ یہ کئی علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان میں تبت، ہانگ کانگ، گلگت بلتستان، تائیوان، انڈیا اور کشمیر شامل ہیں۔ چین نے ان علاقوں میں اپنے سیاسی، فوجی اور اقتصادی ڈھانچے کے ذریعے توسیع پسندانہ اثر و رسوخ بڑھانے کی مجرمانہ کوششیں کی ہیں۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو چین نے اپنی سیاسی اور فوجی اجارہ داری کو افریقہ، تاجکستان، سری لنکا اور کئی دیگر خطوں تک بھی پھیلا دیا ہے۔ ان کی یہ جارحانہ پالیسیاں عالمی سطح پر مختلف قسم کی کشیدگیوں اور تنازعات کو بڑھا رہی ہیں، جو تیسری جنگ عظیم کا سبب بن سکتی ہیں۔

چین نے 1950 میں فوجی کارروائی کے ذریعے ”تبت“ پر قبضہ کیا۔ یہ اقدام چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ابتدائی حصہ تھا، جہاں چین کی فوج ”پیپلز لبریشن آرمی“ نے تبتیوں پر فوج کشی کرکے ان کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کر لیا۔ اور اسے زبردستی اور فوجی طاقت کے ذریعے چین کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔ اگرچہ تبت کے عوام نے اس فوجی کارروائی کے خلاف مزاحمت کی، مگر اپنی فوجی قوت کے بل بوتے پر ان کی تحریکوں کو وقتی طور پر کچل دیا گیا۔

تبت ایک آزاد اور متنازع خطہ ہے۔ چین کے ساتھ اس کے الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور یہاں چین کے قبضے کے روزِ اول سے آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔ ”تبت“ جو اپنے مخصوص جغرافیائی خصوصیات کی وجہ سے دنیا کی ”چھت“ کہلاتا ہے، زمین کا انتہائی بلند ترین علاقہ ہے۔ اس سے آگے انسانی آبادی ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں دنیا ”کے ٹو“ اور ”ماؤنٹ ایورسٹ“ میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک عظیم بدھ ریاست ہے۔ بدھ مت ایک روحانی فلسفہ یا مذہب ہے، جس کی بنیاد ہندوستان کے عظیم فلسفی گوتم بدھ نے رکھی تھی۔

تبت کی تاریخ بہت قدیم ہے، اور اس کی ریاستی حیثیت تاریخ میں 7ویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔ یہ نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے اہم حیثیت کا حامل ہے، بلکہ ثقافتی اور روحانی اعتبار سے بھی ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

جہاں بدھ مت کی عبادات اور روایات کا آغاز ہوا تھا۔ یہاں دنیا کی بلند ترین پہاڑی سلسلہ جیسے کوہ ہمالیہ پائے جاتے ہیں۔یہ اپنے بلند وبالا پہاڑی ماحول، برف پوش چوٹیوں،اور وسیع عریض میدانوں کی وجہ سے دنیا کی چھت کا لقب پایا۔

تبتی اب بھی خود کو چین کا حصہ نہیں سمجھتے اور وہاں آزادی کی جدوجہد تاحال جاری ہے۔ تبتی سمجھتے ہیں کہ چین نے ان کی آزادی اور شناخت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ چین کے خلاف تبت اور تبت سے باہر آزادی کی تحریکیں اور احتجاجات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔

1959 میں دلائی لامہ کی قیادت میں چین کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ لڑی گئی۔ یہ تحریک آج بھی اتار چڑھاؤ کے باوجود جاری ہے۔ دلائی لامہ کی زیر قیادت ان تحریکوں نے چین کے تسلط کو عالمی سطح پر چیلنج کر دیا ہے۔ آج دنیا بھر میں تبت کی آزادی کے لیے آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، اور کئی ممالک، بین الاقوامی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چین کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے تبت کی آزادی کی حمایت کر رہی ہیں۔

اس وقت مختلف تبتی تنظیمیں عالمی اور علاقائی سطح پر آزادی کے لیے سرگرم ہیں۔ ان میں “انٹرنیشنل تبت نیٹ ورک” (International Tibet Network)، “تبت سپورٹ گروپ”، “فری تبت” جیسی تنظیمیں شامل ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر چین کے تسلط اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

تبتی آزادی کی تحریک صرف مذہبی نہیں بلکہ ایک قومی جدوجہد ہے۔ اس کا مقصد تبتی قوم کی آزادی، زبان، ثقافتی ورثے اور قومی شناخت کو بچانا ہے۔ چین اور اس کے حمایتی ممالک اس جدوجہد کو محض مذہبی پابندیوں کے طور پر پیش کرکے حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک قومی اور سیاسی تحریک ہے، جس میں آزادی پسند قوتیں تبت کے وسائل کی لوٹ مار اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

تبت مشرقی ترکستان کی طرح قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں سونا، چاندی، تانبا، زنک، لوہا، کوئلہ، قدرتی گیس، اور تیل کے وافر ذخائر ہیں۔ تبت کی جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل نے چین کو مجبور کیا کہ وہ ان وسائل کو اپنی معاشی طاقت اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بے دردی سے استعمال کرے۔

یہ خطہ زرعی اور آبی وسائل کے لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہے۔ یہاں کے برفانی گلیشیئرز اور دریا پورے ایشیا کے لیے پانی کا ذریعہ ہیں، جس کی وجہ سے تبت کو ایشیا کا “واٹر ٹاور” کہا جاتا ہے۔ تاہم، چین نے ان دریاؤں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور انہیں اپنے مختلف منصوبوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

گزشتہ چھ دہائیوں سے چین کے مظالم اور زیادتیاں تبتی قوم کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔ تبتی زبان، تعلیم، اور ثقافتی روایات پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اور “ہن چینی” آبادکاری کی پالیسی کے ذریعے تبتیوں کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ چین امن مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، جس میں مظاہرین پر فائرنگ، قید و بند کی سزائیں، اور جسمانی و ذہنی اذیتیں شامل ہیں۔

“اسٹوڈنٹس فار فری تبت” کے رہنما ڈاکٹر بی زیرنگ، جو کہ ایک معروف تبتی دانشور، مصنف، محقق، اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں، کے مطابق 1959 سے آج تک ایک ملین سے زائد تبتی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ہزاروں افراد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

چین کی نام نہاد ترقی، جو وسائل کی لوٹ مار، انسانی حقوق کی پامالی، اور متنازع علاقوں پر قبضے پر مبنی ہے، کو عالمی برادری کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، خاص طور پر سیندک پروجیکٹ کے معدنی وسائل کی لوٹ مار، چین کی سرمایہ کارانہ پالیسیوں کی ایک اور مثال ہے۔ سیندک میں سونے اور تانبے کی کان کنی سے چین نے اربوں ڈالر کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ، کوئلہ، لیتھیم، زنک، اور دیگر معدنیات کی غیر قانونی اسمگلنگ بھی جاری ہے، جس میں مقامی حکام اور سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔

چین کی یہ سرمایہ کاری اور لوٹ مار صرف قدرتی وسائل تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک سامراجی منصوبہ ہے جو انسانی حقوق کی پامالی، قوموں کی آزادی پر قدغن، اور وسائل کے بے رحمانہ استحصال پر مبنی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔