نام نہاد جاگیر داروں نے ہر دور میں بلوچ نسل کشی میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

66

پچیس جنوری یوم یادگار بلوچ نسل کشی کو دالبندین میں ہونے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج نصیر آباد پہنچے جہاں انہوں ایک کارنر میٹنگ کے دوران عوامی مجمعے سے خطاب کیا۔

انہوں خطاب میں کہا کہ عوام نے ریاستی جبر کے خوف کو ایک دن میں توڑ کر اس پروگرام کو کامیاب بنایا۔

انہوں نے بتایا بلوچ جہاں بھی آباد ہے اس کو یہ جاننا ہوگا کہ اس ریاست اور اس کے قانون کے اندر اس کی کیا اہمیت ہے۔ بلوچ جہاں بھی رہتا ہو اس کی زبان کونسی ہو اس کو غلام کی طرح رکھا گیا ہے۔ اس غلامی کے تلے بلوچستان کی وسائل لوٹنے کے لئے بلوچ کی نسل کشی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا بلوچ نسل کشی کے بہت سی شکلیں ہیں اس کی ہر شکل آپ ہر علاقے میں الگ دکھائی دے گی۔ مگر یہ سب اس لیے ہو رہا کہ بلوچ کو اس قدر بے شعور رکھا جائے وہ اپنی قومی جدوجہد سے دور رہیں۔

انہوں نے کہا پاکستانی نے سب سے پہلے بلوچوں کی زرخیز زمینوں پہ حملہ کیا جو ہم دیکھ ہیں جو زمین وہ بلوچ کی ہے مگر اس کا مالک ایک فوجی ہے جس نے بلوچوں کو غلام بنایا ہوا ہے۔ بلوچ کا کسان اس جاگیر کے نیچے کام کررہا ہے جو اس کے پیرول پر کام کررہا ہے۔ نام نہاد جاگیر داروں نے ہر دور میں بلوچ نسل میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ ان سرداروں نوابوں کے خلاف آپ لوگوں کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ مگر اس کی پہنچان یہ نہیں ہے کہ وہ بلوچی براہوئی یا سرائیکی بولتا ہے اس کی پہنچاں یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف پنجاب کی زبان بولتا ہے۔ اس نے اپنی زبان بلوچی براہوئی اس لئے بنائی ہے تاکہ وہ ہم اور آپ کو بانٹ سکے۔

انہوں نے کہا نصیر آباد جعفر آباد کے لوگوں آج سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ اپنی قومی شناخت کی جانب آئیں ہم چاکر خان کے اولاد ہیں ہم بالاچ کے فرزند ہیں ہماری ہزار سالہ پرانی تاریخ ہے انگریزوں کے بنائے ملک سے پہلے کی ہماری تاریخ ہے

انہوں نے کہا کہ ہر وقت اس ریجن کو آفت زدہ، سیلاب زدہ قرار دیا جاتا ہے یہ سیلاب اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ ریاست کی طرف سے آتے ہیں۔ آج کینسر نے وبا کی شکل اختیار کرلی ہے، آج کتنے خواتین زچگی کے دوران وفات پاتے ہیں اس ریجن میں اس کی وجہ ہم سب کی خاموشی ہے یہاں کی حکومت صرف اور صرف اس لئے بنائی گئی ہے کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کی جائے، نسل کشی صرف یہ نہیں اس کو پکڑیں اور مار دیں اس کی بہت سی شکلیں ہیں ان شکلوں کو پہنچائیں۔

آج دوسرے اقوام کے لوگوں لاکر یہاں بسایا گیا وہ اپنی شناخت بدل کر خود کو بلوچ کہہ رہے ہیں اگر کوئی اقوام بلوچ کے ساتھ بھائی کے ساتھ رہے گا تو وہ ہمارے بھائی ہیں اگر کوئی بلوچ کو تقسیم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بلوچ کے دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا بلوچستان میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ہماری پہنچاں صرف اور صرف بلوچ ہے۔

انہوں نے کہا آج ہمارے پاس صرف ایک ہی موقع اس تحریک کے ساتھ ہوجائیں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوجائیں۔