مشتری ہوشیار باش – عمران بلوچ

142
مشتری ہوشیار باش
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“مشتری ہوشیار باش” ایک قانونی اور سماجی اصطلاح ہے جو عموماً زمین کی خریداری جیسے معاملات میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار کو سودا کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ زمین کے حوالے سے تمام معاملات شفاف ہیں، مثلاً:
•زمین پر کوئی قانونی تنازع تو نہیں؟
•زمین کے کاغذات درست ہیں؟
•زمین اصل مالک ہی بیچ رہا ہے یا نہیں؟
اگر خریدار ان معاملات کی تحقیق کے بغیر سودا کرے اور نقصان اٹھائے تو یہ اس کی اپنی غفلت کے باعث ہوگا۔ انگریزی میں اسے “Lis Pendens Doctrine” کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص نادانی یا لالچ میں آکر بغیر تصدیق کے سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کے نقصان کا ذمہ دار صرف وہ خود ہوگا، کیونکہ ایسے سودے کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔
بلوچ اور ریاست کا تعلق ہمیشہ “مشتری ہوشیار باش” کی مانند رہا ہے۔ تاہم، ریاست نے ایک ٹھگ کی طرح بلوچ ریاست، بلوچ قومی وسائل، اور انسانی حقوق کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے علاوہ، ریاست نے بلوچ قومی تاریخ، زبان، اور شناخت کو مسخ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔
1948 سے لے کر 2024 تک، بلوچ عوام نے بارہا ریاست کو “مشتری ہوشیار باش” کا پیغام دیا، لیکن ریاست نے ہمیشہ اس پیغام کو نظرانداز کیا اور مفت مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے کی ٹھانی۔ ریاست کے لیے بلوچ وسائل کو لوٹنے کا فلسفہ یہ رہا ہے کہ اگر کوئی نقصان ہوگا بھی تو صرف مفت کے مال کا ہوگا، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
ریاست کی ایک مستقل حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ مذہب اور لسانی تقسیم کو مقامی لوگوں کے خلاف استعمال کیا جائے اور ان کے عقائد، روایات، اور قومی تاریخ کو قابض کے تابع کرنے کی کوشش کی جائے۔ قابض قوتوں نے ہمیشہ یہی دعویٰ کیا ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے بارے میں خود ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ دعویٰ انگریزوں نے برصغیر میں کیا اور مقامی امریکنز (ریڈ انڈینز) کے بارے میں بھی۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ محکوم اقوام اپنی شناخت، تاریخ، اور وجود کو بھول جائیں اور قابض کو اپنا نجات دہندہ مان لیں۔
جولائی کے مہینے میں اسلام آباد کے ایک کتاب فروش “مسٹر بُک” کے آفیشل فیس بک پیج پر میر ہزار خان رحمکانی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک کتاب کا سرورق نظر آیا۔ کتاب خریدنے کے لیے میں نے فوراً اسلام آباد میں موجود ایک بلوچ وکیل دوست سے رابطہ کیا۔ کتاب کی اشاعت میں تاخیر کے حوالے سے کئی حیلے بہانے کیے گئے، حتیٰ کہ یہ بتایا گیا کہ مواد کسی نے ضبط کر لیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کتاب سرکاری سطح پر جاری کی جا رہی ہے، اور اس کی تقریبِ رونمائی میں سرفراز بگٹی جیسے لوگ خطاب کر رہے ہیں۔
یہ کتاب حقیقت میں میر ہزار خان رحمکانی کی لکھی ہوئی نہیں تھی، بلکہ ان کے مرنے کے چار سال بعد ان کے نواسے سے منسوب کی گئی، جو خود پاکستانی فوج میں ملازم ہے۔ کتاب کا مواد زیادہ تر تصویری البم پر مشتمل تھا، اور یہ نوٹس اور تبصرے ایسے لوگوں نے لکھے تھے جن کا بلوچ قومی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ریاست نے ہزار خان کو بلوچوں کا ہیرو بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی، جیسا کہ اس سے قبل پشتون رہنما جمعہ خان صوفی کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ یہ حربہ اس وقت بھی ناکام ہوا تھا اور آج بھی ناکام ہے۔ بلوچوں کے لیے ان کے اصل ہیرو ہمیشہ زندہ رہیں گے، اور ریاست کے جھوٹے بیانیے کسی سچائی کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
ریاست نے ہزار خان رحمکانی کا نام استعمال کرکے ایک کتاب کے ذریعے بلوچوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ عمل نہ صرف ناکام ہوا بلکہ ہزار خان کی زندگی کے مختلف پہلو بھی بے نقاب ہو گئے۔ ان کے بیٹے شہنواز مری نے بھی ایک تردیدی بیان جاری کیا کہ ان کا اور ان کے خاندان کا کتاب سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ کتاب ان کی مرضی کے خلاف شائع کی گئی۔
میر قادر مری کی کتاب “گوریلا جنگ کی کہانی میر قادر مری کی زبانی” اس تناظر میں ایک مستند دستاویز ہے، جس میں ہزار خان کے قومی تحریک سے منحرف ہونے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ہزار خان کے اپنے الفاظ اور اعمال بتاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے کیے پر شرمندہ تھے۔
ریاست کا یہ حربہ کہ وہ بلوچ قوم کے ہیروز کو مسخ کرے اور مخبروں کو ان کی جگہ ہیرو بنا کر پیش کرے، ہمیشہ کی طرح ناکام ہوا ہے۔ بلوچ قوم کے لیے ان کا تشخص اور جدوجہد آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔