قومی اجتماع
ٹی بی پی اداریہ
چاغی، بلوچستان کا وہ پسماندہ ضلع ہے جہاں کی زمین قیمتی معدنی وسائل سے مالامال ہے، لیکن یہاں کے مقامی لوگ اب بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ چاغی عرب بادشاہوں کے لیے تلور کے شکار اور چین و دیگر عالمی سرمایہ کاروں کے لیے سونے کی کانکنی کا مرکز بن چکا ہے، مگر اس کی حقیقی قیمت وہاں کے عوام ادا کر رہے ہیں۔
بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن کے موقع پر 25 جنوری کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے چاغی کے علاقے دالبندین میں ایک قومی اجتماع منعقد کیا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس اجتماع نے ریاستی مقتدر قوتوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ بلوچ نسل کشی کی پالیسیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہیں۔ مقررین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بلوچ اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاستی جبر کے خلاف سیاسی مزاحمت جاری رکھی جائے گی اور قومی حقوق کے لیے جدوجہد کو مزید منظم کیا جائے گا۔
چین کی کمیونسٹ حکومت اور کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ چاغی کے علاقے سیندک اور ریکوڈک میں سونے اور چاندی کی کانکنی میں مصروف ہیں، جبکہ سعودی حکومت بھی ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ بلوچ قومی ادارے ان منصوبوں کو استحصالی قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کے فوائد بلوچ عوام کے بجائے غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں کو حاصل ہو رہے ہیں۔ سالہا سال سے جاری ان وسائل کی لوٹ مار نے چاغی کے عوام کو بدحالی میں دھکیل دیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے نہ صرف بلوچ عوام کو جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف متحد کیا ہے، بلکہ دالبندین کے اس قومی اجتماع میں بلوچ وسائل کے تحفظ اور بیرونی سرمایہ کاروں کے استحصالی منصوبوں کے خلاف عوامی مزاحمت کا پرچم بھی بلند کیا ہے۔
دالبندین میں بلوچستان بھر سے لوگوں کی پرجوش شرکت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ قوم اپنی جدوجہد میں نہ صرف متحد ہے بلکہ سیاسی مزاحمت کا یہ سلسلہ مزید منظم ہو کر ابھرے گا۔ حالیہ قومی اجتماعات کے اثرات بلوچ قومی تحریک پر دور رس ہوں گے اور یہ جدوجہد ریاستی جبر کے خلاف ایک مضبوط سیاسی تحریک کی شکل اختیار کرے گی۔