فلسفہِ مزاحمت
تحریر: سمی دین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ ناقابلِ تردید حقیقت انسانی تاریخ کے اُفق پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی تہذیب کے عروج اور علم کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے بڑا راز اپنی شناخت کو زندہ رکھنا اور اپنی بقاء کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہے۔ تاریخ کے طویل سفر میں ناگوار مصائب، زمین و آسمان کی آفات، بے رحم حکمرانوں، جابر بادشاہوں، اور خونخوار لشکروں کے سامنے انسان نے اپنی بقاء اور سلامتی کے فلسفے کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی موجودگی کو قائم رکھا ہے۔ کیونکہ شناخت اور بقاء کے بغیر نہ انسانی تاریخ کسی معنی میں ڈھل سکتی ہے اور نہ ہی کائنات کا نظام اپنی لطافت اور توازن برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہی فلسفہ اس کائنات کو زندگی اور دوام بخشنے کی حتمی کنجی ہے، اور اسی قوت نے انسان کو کامیابی اور فتح کے بلند میناروں تک پہنچایا ہے۔
بلوچ قوم بھی اسی انسانی تہذیب کی لطافتوں اور عظمتوں کا ایک خوبصورت اظہار ہے، جو ہزاروں سال سے اپنے آباؤ اجداد کے مزاحمتی فلسفے کو زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہے۔ یہ قوم نہ صرف انسانی فطرت اور بقاء کے اصولوں کی علمبردار ہے بلکہ ہر زندہ ضمیر اور باشعور قوم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مزاحمت کے فلسفے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہیں جو مزاحمت کے ذریعے اپنے تشخص، عزت و آبرو، اور بقاء کو محفوظ رکھتی ہیں۔ مزاحمت کے بغیر دنیا کے تمام رنگ و حسن ماند پڑ جاتے ہیں، اور ہر طرف موت کی تاریکی اور خوف کے سائے چھا جاتے ہیں۔ یہی فلسفۂ مزاحمت ہے جو انسان کو خوف کی زنجیروں سے آزاد کرتا ہے اور زندگی کو نئی روشنی اور جلا بخشتا ہے۔ بلوچ قوم نے اسی فلسفے کو اپنایا ہے، اور اس کا تحفظ اب ہماری ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ہماری زندگی کا واحد مقصد بن چکا ہے۔
ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم باشعور اقوام کی صف میں مزاحمت اور بقاء کے اس فلسفے کو زندہ رکھیں گے اور اُن قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنیں گے جو ہمارے پیاروں کی لاشوں پر اپنی تجوریاں بھرنے کے درپے ہیں۔ ہم نسل کشی کے خلاف نہ صرف اپنی موجودہ نسل کو محفوظ رکھیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کی بقاء اور سلامتی کی ضمانت بھی فراہم کریں گے۔ یہ ہمارا شیوہ ہے، ہماری تاریخ کا افتخار ہے، اور ہماری تہذیب کی پہچان ہے۔ ہماری مزاحمت بلوچ قوم کی شناخت، تشخص، اور بقاء کی ضمانت ہے۔
میں بلوچ قوم سے پرزور اپیل کرتی ہوں کہ پچیس جنوری کو دالبندین میں ہونے والے بلوچ قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کریں اور ثابت کریں کہ بلوچ کا درد و دکھ، اُس کی پہچان، اُس کا احساس، اُس کا مرنا اور جینا، اور اُس کی عزت و عظمت سب ایک ہے۔ یہ ثابت کریں کہ بلوچ ایک زندہ، باشعور، اور غیرت مند قوم ہے جو اپنی بقاء کو اولین ترجیح دیتی ہے اور کسی بھی قسم کی ظلم و جبر کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔