فتح ہماری ہوگی – سمی دین بلوچ

258

فتح ہماری ہوگی

تحریر: سمی دین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک کانفرنس کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا؛ “میں سمجھتی ہوں کہ میرے درد اور تکلیف کے مقابلے میں سمی کا درد کہیں زیادہ بڑا ہے، کیونکہ میں والد کی جبری گمشدگی کی اذیت سے بخوبی واقف ہوں۔ میں نے دو بار اپنے والد کی جبری گمشدگی کے بعد جو ذہنی اذیت برداشت کی ہے، وہ ناقابل بیان ہے لیکن میں اپنی قسمت کو سمی کی قسمت سے بہتر سمجھتی ہوں، کیونکہ مجھے اپنے والد کی مسخ شدہ لاش ملی، ان کے سرہانے بیٹھ کر ان سے آخری ملاقات کی، ان سے بہت سی باتیں کیں، اور پھر انہیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔ میں نے دل کو تسلی دی کہ اب میرے والد اس دنیا میں نہیں رہے، اور یہ حقیقت قبول کی کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ یہ تسلی، جو بے شک بہت تلخ ہے، میرے دل کو سکون دیتی ہے۔ لیکن جب میں سمی کی بدقسمتی کو دیکھتی ہوں، تو میرا دل مزید بوجھل ہوجاتا ہے۔”

ماہ رنگ نے منگچر میں اپنے والد کی آخری آرام گاہ پر جا کر چادر چڑھائی تھی۔ میں نے جب اس لمحے کو سوچا، تو ماہ رنگ کی بات یاد آئی کہ وہ واقعی مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہے۔ وہ اپنے والد کی جدائی کے اذیت ناک انتظار سے آزاد ہے۔ لمحہ بہ لمحہ امید اور مایوسی کی کشمکش، ہر نئی لاش کو دیکھ کر یہ خوف کہ شاید یہ ان کے والد ہوں، اور یہ سوال کہ کیا وہ کبھی واپس آئیں گے یا نہیں، ان سب سے وہ محفوظ ہے، بعض دفعہ انسان کو امید سے زیادہ نامیدی اور مایوسی تسلی اور ہمت اور سکون دیتی ہے۔

ماہ رنگ اس بات سے مطمئن ہے کہ ان کے والد منگچر میں دفن ہیں۔ لیکن میرے جیسے بہت سے لوگوں، جن کے والد، بھائی، یا بیٹے آج بھی گمشدہ ہیں، ان کے پاس وہ سکون کا ٹکڑا بھی نہیں ہے کہ کسی آخری آرام گاہ پر جا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں۔

میں بلوچستان کے ہر کونے میں، جہاں میرے والد کی یادیں بسی ہوئی ہیں، ان سے گذر کر ہر روز نئی اذیت کا سامنا کرتی ہوں۔ میں کوئٹہ کے اس مقام پر جاتی ہوں، جہاں میرے والد نے مجھ سے آخری بار ملاقات کی تھی اور جلد لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ مشکے کے وہ پہاڑ، درخت، ندیاں، اور نلی میں ہمارے مٹی کے بنے دو کمرے، جو کبھی ہمارے مضبوط گھرانے کا نشان تھے، آج وہ گھر پاکستانی فوج کے قبضے میں ویران کھنڈر بن چکے ہیں۔ اس گھر کے صحن میں ہوا کے ساتھ اب بھی میرے والد کی آواز اور خوشبو محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ سب کچھ اب ایک مستقل اذیت میں بدل چکا ہے۔

میں جب بھی کسی بازار یا اجتماع میں کسی ایسے شخص کو دیکھتی ہوں، جو میرے والد سے مشابہت رکھتا ہو، تو دل چاہتا ہے کہ اسے گلے لگا کر رو دوں اور ڈانٹوں کہ وہ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔ جب کسی فوجی چھاؤنی کے قریب سے گذرتی ہوں، تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی قید خانے کی روشن دان سے مجھے دیکھ کر آواز دے رہے ہیں۔ یہ لمحے میرے وجود سے میری روح کو چھین لیتے ہیں۔
میں جب خضدار یا اورناچ کے راستے گزرتی ہوں، تو تصور کرتی ہوں کہ کسی گاڑی میں مسلح افراد نے میرے والد کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں، ان کے سر پر سیاہ چادر ڈالی ہوئی ہے اس کے سر پر بندوق تھانے اور انہیں زبردستی لے جایا جا رہا ہے۔ کئی بار اورناچ جانے کا ارادہ کیا، لیکن اپنے جذبات کے سامنے ہار جاتی ہوں۔ میرے قدم مجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں دیتے۔

مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد اب بھی کسی تاریک زندان میں روزانہ اپنی سانسوں کے ساتھ مزاحمت کرکے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں یا وہ توتک کی اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔ لیکن اس بے یقینی اور امید کی کشمکش ہمیں ہر روز توڑ کر بکھیر دیتی ہے۔

جب میں ڈاکٹر ماہ رنگ کو دیکھتی ہوں، جو اپنے والد کی آخری آرام گاہ پر چادر چڑھا رہی ہیں، تو سوچتی ہوں کہ ان کے والد کے لیے یہ کتنا بڑا اطمینان اور فخر ہوگا کہ ان کی بیٹی ان کے فلسفے کو آگے بڑھا رہی ہے، بلوچستان کے لوگوں کو ایک کر کے ان کی جنگ لڑ رہی ہے، اور اپنے والد کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں ہونے دے رہی اور یقیناً یہ لمحہ ماہ رنگ کے لئے بھی کسی اعزاز اور فخر یہ کم بات نہیں ہوگی جب وہ اپنے قوم کے ساتھ ملکر تمام شہیدوں کے قبروں پر چادر چڑھائی کے بعد اپنے بابا کی آخری آرام گاہ پر جاکر چادر چڑھائی کرکے پھول نچاور کر کے یہ عہد کرے کہ وہ اپنے بابا کی دی ہوئی نظریے فلسفے اور جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ لمحہ قابل دید قابل فخر لمحہ ہے، اور ماہرنگ کو یہ اطمینان فخر ، ہمت و حوصلہ ہمیشہ نصیب ہو۔

اسی یقین کے ساتھ، میں ان تمام ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں کی جدوجہد پر مکمل یقین رکھتی ہوں، جن کے پیارے آج بھی پاکستانی زندانوں میں قید ہیں۔ یہ جدوجہد ایک دن تبدیلی ضرور لائے گی۔ اور اگر ہمارے پیارے کبھی واپس نہ بھی آئے، تو ہم انہیں بلوچستان کی زمین میں موجود اجتماعی قبروں میں تلاش کریں گے۔ ہم ان لاشوں کو اپنائیں گے، اور یہ احساس دلائیں گے کہ ان کی مائیں اور بہنیں ان کی جنگ کو آگے لے کر جا رہی ہیں۔

ہم اس جدوجہد کو اس کے انجام تک پہنچائیں گے، کیونکہ یہ جنگ صرف زندہ رہنے کی نہیں، بلکہ انصاف، نظریہ فلسفہ، قومی تشخص و بقاء اور اپنے گمشدہ اور شہیدوں کی ہر ایک اذیت تکلیف، خون کے قطرے، ہر ایک تاریک رات اور بے روشن صبح کیلئے اور انسانیت کی بقاء کے لیے ہیں۔۔۔۔ فتح ہماری ہوگی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔