کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر قیادت بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5707 دن مکمل ہو گئے۔ سبی سے سماجی کارکنان عبدالغنی سیلانی، عمران بلوچ، اور دھنی بخش سومرو نے کیمپ آ کر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے گوادر میں پیش آئے حالیہ واقعے پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے ڈپٹی کمشنر کی انتظامیہ، جن کی شہرت زیارت میں لائبریری کے قیام کی وجہ سے تھی، نے گوادر میں کتاب کا اسٹال لگانے پر چار طالب علموں کو گرفتار کیا۔ ان طلباء کو قید میں رکھا گیا، ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے گئے، اور مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
ماما قدیر نے اس اقدام کو قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ گوادر انتظامیہ کے لیے یہ عمل باعثِ شرم ہے۔ بچوں کو بلاوجہ ہتھکڑیاں نہیں لگانی چاہیے تھیں۔ کتابیں پڑھنا اور کتابیں فروخت کرنا نہ کوئی اشتعال انگیز عمل ہے اور نہ ہی جرم۔ اس طرح کی گرفتاریاں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالب علموں کو علم حاصل کرنے اور مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہیں امید ہے کہ یہ طلباء ان ہتھکنڈوں کا حوصلے اور عزم کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔
مزید برآں، ماما قدیر بلوچ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بلوچ قوم جبر کے خلاف بہادری سے کھڑی ہے اور عالمی سطح پر بلوچ مسئلے کو اجاگر کرنے میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ بلوچ سفارتکاری میں کامیابیاں حاصل ہونا جدوجہد کی بڑی کامیابی ہے۔