شہید یاسر بلوچ ایک استاد ، ایک راہشون ۔ شہزادہ بلوچ

67

شہید یاسر بلوچ ایک استاد ، ایک راہشون

تحریر: شہزادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

کسی سرزمین کی آزادی کی جنگ اس کے شہریوں پر منحصر ہوتی ہے۔ وہ افراد جو اپنی جانیں بے لوث قربان کر دیتے ہیں تاکہ ان کے سرزمین اور اہل وطن آزاد ہو سکیں ان کی شناخت آزادی پسندوں اور جہدکار جنگجووں کے طور پر کی جاتی ہے۔ ہر سرزمین میں چند بہادر دل افراد ہوتے ہیں جو اپنے ہم وطنوں کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے صرف اپنے سرزمین کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو خاموشی سے دکھ سہے، اپنا خاندان اور یہاں تک کہ اپنے لیے جینے کا حق بھی کھو دیا۔ سرزمین کے لوگوں کو مادروطن کے جنگجوؤں کو ان کی حب الوطنی اور اپنی مادر وطن سے محبت کے لیے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جن کے ذریعے پوری قوم جینے کا وجہ جانتے ہیں۔ آزادی پسند وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے سرزمین کی آزادی کے لیے بے لوث جانیں قربان کیں۔ ہر سرزمین میں آزادی کے جنگجوؤں کا اپنا حصہ ہے۔ لوگ انہیں حب الوطنی اور وطن سے محبت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ انہیں محب الوطنی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔

اِسی طرح مادر وطن بلوچستان نے بہت سے آزادی پسندوں کو اپنی مادر وطن کے لیے لڑتے دیکھا ہے۔ جب کہ میں ان میں سے ہر ایک کا یکساں احترام کرتا ہوں، میرے پاس کچھ ذاتی پسند ہیں جنہوں نے مجھے اپنے مادر وطن کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔ سب سے پہلے، میں پوری طرح سے اپنے قریبی اور جگری دوست سپاہی شہید یاسر بلوچ زہری عُرف ماسٹر سفر خان کی بات کرتا ہوں۔ میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ شہید یاسر بلوچ میرا بہت ہی قریبی دوست ہوتے ہوئے میرا اُستاد بھی رہا ہے، شہید یاسر جان نے مادروطن کی آزادی کا راستہ چنا ، یاسر بلوچ نے قابض فوج کے خلاف بغاوت کی تاکہ مادر وطن اور اس کے لوگوں کے لیے کھڑے ہو سکیں۔ اور بغیر کسی خوف کے آزادی کی جہد میں اپنی خدمات شامل کی اور پھر اپنے پیارے عزیزو کو چھوڑ کر بغاوت کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، سچائی اور امن سے اپنے قوم کا دل جیتا اور اپنے مادر وطن بلوچستان کی آزادی کے عظیم جنگ میں اپنا حصہ شامل کیا۔

آزادی کے لئیے لڑنے والے جہدکاروں نے وہ قربانیاں دیں جو اپنے پیاروں کے لیے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، سرزمین تو چھوڑیں۔ انہوں نے جس قدر درد، مشکلات اور علاوہ ازیں برداشت کیا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بعد آنے والی نسلیں ان کی بے لوث قربانیوں اور محنت کی ہمیشہ ان کی مقروض رہیں گی۔ شہید یاسر بلوچ کے لیے بہت سے سنگتوں نے تحریر اور شاعری لکھی ہیں بہت سے دوستوں کا کہنا تھا کے شہید کے لیے ایسے الفاظ نہیں جس سے ہم اُنکے شخصیت کو بیان کر سکے جب میں نے تحریر لکھنا شروع کیا تو واقعی میں سمجھ آیا کہ میں اس عظیم کردار کو اچھے طریقے سے بیان نہیں کرسکوں گا، میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کے میں اس عظیم ہستی کی عظمت بیان کر سکوں۔

شہید یاسر بلوچ کا جنم ۷۲ اکتوبر ۱۹۹۷ میں بلوچستان کے شہر خضدار میں ہوا اُُنکا تعلق خضدار کے گاؤں مولہ سے تھا۔ وہ بہت ہی ہوشیار، ہونہار اور سمجھدار طالب علم تھا، وہ کھیل کے میدان میں ایک چمیپئن کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ،یاسر بلوچ سنوکر کا بہترین پلیئر تھا وہ جونیئر انٹرنیشنل ۱۷، ۱۹ اور ۲۱ کپ میں بلوچستان سے حصہ لیکر کھیل چُکا تھا، اور آپ فٹبال کے بھی بہترین کھلاڑی تھے کھیلوں کے ساتھ ساتھ آپکو پڑھائی سے بہت دلچسپی تھی آپ سکول میں ہمیشہ اول آتے جب آپ نے گریجویشن کے لئے یونیورسٹی میں داخِلہ لیا تو ہمیشہ ہر سیمیسٹر میں آپ ۴ سی جی پی اے سے نوازے جاتے۔ آپ اخلاق کے بہت اچھے انسان تھے ہر کسی سے نرمی سے پیش آتے، آپکو اللّٰہ جان نے بہت ہنروں سے نوازا تھا آپ عام انسان نہیں تھے آپ ایک خوبصورت ہیرے تھے، جو ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا۔ آپ کی وطن دوستی، مخلصی، نڈرپن جنگجو، تعلیم یافتہ اور انتہائی پرجوش صلاحیتوں کو بیان نہیں کیا جاسکتا آپ بہت ہی خوش مزاج انسان تھے، جن سے آپکی ملاقات ہوئی ہے وہ آپکو اچھے طریقے سے جان چُکے ہونگے۔ آپ اَنکے لئے بہت خاص ہونگے، آپ کی شہادت نے سب کو توڑ دیا ہے لیکن آپکا نظریہ آپکا فکر ہمیشہ اُنکے دلوں میں زندہ رئیگا آپ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی، آج پورا بلوچستان جان چُکا ہے آج بھی ہر گھر میں ہر مجلس میں آپکا نام لیا جاتا ہے۔

شہر میں ہمارا ایک ذاتی کمرہ تھا جہاں ہم اپنا زیادہ وقت وہی پر گزارتے تھے میں جب یاسر جان کو سوتے ہوئے پاتا تو وہ سر کے نیچے کبھی تکیہ نا رکھتے، میں جب بھی کوئی فروٹ یا کھانے کی چیز خرید کر لاتا تو وہ کئی دن تک بغیر کھائے پڑے رہتے، یاسر جان جب بھی نیند سے بیدار ہوتے تو جلدی سے تیار ہوتے اپنا وقت کبھی ضائع نہ کرتے، اور جو کوئی کام ہوتا اُسے جلدی سے نمٹا دیتے تھے، یاسر جان نے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر پورا تیار کر رکھا تھا انہی وجوہات کی وجہ سے وہ ایک کامیاب شخص تھے۔ یاسر جان ایک کتاب دوست بھی تھے وہ ہمیشہ کتابوں کا مطالعہ کرتے اور ہر روز نئی کتابیں لاکر پڑھا کرتے تھے اور مُجھے بھی کتاب پڑھنے کا درس دیتے تھے، یاسر جان کو علم کی اگائی دینے اور پڑھانے کا بھی بہت شوق تھا میں جب بھی کمرے میں داخل ہوتا تو اُنکے پاس ایک نوجوان ضرور ہوتا جسے وہ پڑھا رہے ہوتے۔ اس کے لئے یاسر جان نے مخصوص وقت رکھا تھا جس میں وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے اُنکے گھر جاتے تھے۔ یاسر ایک انتہائی سمجھدار انسان تھے، ہر اُس چیز کو پورا کرنے کے لئے اپنے ہنر کا استعمال کرتے جب بھی میں اور یاسر جان کسی پریشانی میں ہوتے تو وہ اپنے صلاحیتوں کی وجہ سے ہر پریشانی کا حل نکال لیتے تھے، اور اپنے خرچوں کے لئے وہ بچوں کو درس دیکر وہی سے اپنے لئے پیسے جمع کرتے تھے۔ یاسر جان ہمیشہ مہر محبت اور امن کی بات کرتے تھے ہمیشہ کہتے تھے کے ہمیں اپنے اندر کے اختلافات کو ختم کرنا چائیے ہمیشہ پرامن رہنا چائیے، اور خود پر جتنا ہو سکے بہتری لانا چائیے اور اپنے خوبیوں خامیوں کو سمجھنا چائیے۔ میں اپنے دوست یاسر جان سے بہت زیادہ متاثر ہوں، یاسر جان میرا اُستاد رہا ہیں میں اپنے دوست کی ہر باتوں پر ناز کرتا ہوں، مُجھے زندگی کو سمجھنے کا درس یاسر جان سے ملا ہے، یاسر جان کے یہ سب عادات مُجھے ہمیشہ یاد آتے ہیں اور میں ہر اول ہر دن دل و جان سے اُن پر پورا اترتا ہوں اور خود کو یاسر جان کی عادتوں کی طرح بنانا چاہتا ہوں۔

آپ جب شہر کے محاذ پہ تھے تو اُس وقت آپ نے ہر پلیٹ فارم پہ اپنے مادر وطن کے لوگوں کے لئیے بے شمار کام سر انجام دیا اُنکو سچائی کی طرف راغب کیا اُنکو شعور کا اصل مقصد سکھایا آپ نے تنظیم کے لئیے اور قوم کے لئے اپنی بے شُمار خدمات پیش کیئے اور پھر آپ نے بغاوت کا راستہ چُنا اور پہاڑی دوستوں کے ساتھ ہم گام ہُوئے، آپ پختہ ایمان سے لیس ایک بہادر، سمجھدار، اور جفاکش خودمختار جُہدکار تھے۔ قومی آزادی کی سوچ و فکر نے آپکو بھوک، پیاس، سردی اور گرمی برداشت کرنا سکھا دیا تھا۔ ناگاہوں کے پہاڑوں سے لیکر بولان او شور، پارود، قلات سے لیکر نوشکی تک آپ نے ہر جنگ میں حصہ لیا کوئٹہ ولی تنگی، شعبان، آپریشن درہ بولان، قلات اسکلکو اور آپریشن ہیروف میں آپ نے حصہ لیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے دشمن کو ہمیشہ مات دی آپ ہر جنگ میں سب سے آگے ہوتے آپکے جذبات اور آپ کی صلاحیتوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا آپکی شہادت ہم سب کے لئیے نقصان کا باعث رہا۔ آپکو تو اب پُورا قوم جان چُکا ہے، آپ سب کے لئے زندہ ہو اُنکے دل میں زندہ ہو اُنکی سوچ میں زندہ ہو آپ ایک مثال اور مقصد بن چُکے ہو آپ جیت چُکے ہو، انشااللہ آپ کی قربانی، خواری اور آپکے ہر لہو کے قطروں سے وطن کے لئے بہار آئینگے آپکے خون کا ہر قطرہ وطن میں ہزاروں خوشیاں لائینگی۔

میں زندگی میں نشے کا مریض رہ چُکا ہوں میں بہت ہی کم عُمر میں نشوں کا عادی ہو چُکا تھا بس اپنی اسی حال میں مگن رہتا خود کو بہت برباد کر دیا تھا میں نے اپنے انہی عادتُوں کے وجہ سے مُجھے ان چیزوں کے بنا کسی چیز کا غم نا رہتا، میری اِسی عادت نے میرے دوست شہید یاسر جان کو بہت مایُوس کیا تھا وہ مُجھے لیکر بُہت پریشان رہتا تھا میں صبح و شام ہر وقت نشے کرتا اور اُسی میں مگن ہوتا تو وہ جب بھی مُجھے دیکھتا بہت مایُوس ہو جاتا تھا، ہر وقت مُجھے سمجھانے کی کوشش میں لگا رہتا بہت دفعہ انہوں نے مُجھے نصیحت دی لیکن میں اُسکی باتوں پہ کبھی توجہ نہیں دیتا تھا میں نے یاسر جان کو بہت مایوس کر دیا تھا۔میں یاسر جان کے کاموں میں اُنکے لئے ایک رکاوٹ سا تھا جسکے لیے میں خود کو زندگی بھر معاف نہیں کر پاؤں نگا۔

یاسر جان ہمیشہ مُجھ سے کہتا کے دوست انہی رکاوٹوں کی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنے اصل مقاصد کو پہچاننے سے قاصر ہیں، تمہاری طرح بھی بہت سے بچے اور نوجوان اس لت کا شکار ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہماری بقا اور شناخت کے لئیے بہت بڑا نقصان ہے، نوجوان شعور سے دور ہو رہے ہیں سچے راستوں کو سیکھنے کے بجائے غلط راستوں پر چل رہے ہیں، کوہی نشے میں مصروف ہے تو کوئی چوری میں مصروف ہے، نوجوانوں میں بہت سے خوبیاں ہیں وہ اُن خوبیوں کو سمجھنے کے بجائے خُود کو برباد کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر کوئی اپنے ذات تک محدود ہے سوچھنے کو تو بہت سے چیزیں ہیں جو ہم پر فرض ہیں لیکن سب سے بڑا فرض اس وقت ہم پر سرزمین کا قرض ہے ہم نے کبھی اپنے قوم اور اپنے مادر وطن سے محبت کا سلیقہ نہیں سیکھا، یہ سب قابض کا غلام ہونے کا نتیجہ ہیں بہت سے نوجوان اُن کے پیروں تلےاُن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس غلامی میں جینا قابض کے لئے بہت بڑا فائدہ ہے، ہم سب قابض کے پالیسی اور پروپیگنڈہ کا شکار ہو چُکے ہیں۔

شہید یاسر جان ان حالات کو دیکھ کر پریشان رہتا اور بہت افسوس کرتا اور میرے ساتھ باقیوں کو طریقے سے سمجھاتا اور کہتا کہ یہ چیزیں کبھی انسان کو مخلص نہیں بناتی یہ بربادی کا جڑ ہیں یہ سب چیزیں ہمیں اچھا کام کرنے سے روکتے ہے ہمارے اُوپر بہت سی ذمہ داریاں ہیں ہمارے اُوپر بہت سے فرائض ہیں ہمیں اپنے فرض کو سمجھنا ہوگا، جن نوجوانوں کو پڑھنا آتا ہے لیکن پھر بھی وہ مطالعہ نہیں کرتے جن کو کھیلنا آتا ہے وہ کھیل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور جن کو حالات سے لڑنا آتا ہے وہ حالات سے لڑتے نہیں، حالات کو دیکھ بھی رہے ہیں سمجھ بھی رہے ہیں پھر بھی ہم سب خاموش ہے اور غفلت کی نیند سو رہے ہے، جن راستوں پر ہمیں ہونا چائیے ہم وہ راستہ اختیار ہی نہیں کر رہے اسکے لئے صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ مقصد اُنکے پاس نہیں ہوتا جو جینے کی اصل حقیقت نہیں جانتے اِسی لئے بھٹک رہے ہے اور جن کے پاس شہیدوں کا فکر اور نظریہ ہے اور اپنے مادر وطن کے لئیے بے پناہ محبت ہے وہ کبھی ان غلط راستوں پر نہیں چلے گا جن کے پاس شہیدوں کا فکر اور نظریہ نہیں اور اپنے مادر وطن سے بے شمار محبت نہیں تو ظاہر سی بات ہے وہ ریاست کے اس پالیسی اور پروپیگنڈہ کا شکار ہونگے، ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اپنے قوم کے لئے بے شمار کام کرنا ہے ہمیں اُنکو باور دِلانا ہوگا اور اُنکا بھروسہ جیتنا ہوگا تب ہی ہم اُنکو صحیح راستے پر لا سکتے ہیں۔

ہماری آخری پکنک خضدار کے پکنک پوائنٹ چھارو مچھی میں ہوا رات کی تاریکی تھی ہم پوائنٹ پر ۱پہنچ چکے تھے اور اپنا خیمہ تیار کرنے کے بعد کُچھ دوست سو گئے پر مُجھے اور یاسر جان کو نیند نہیں آئی تو میں اور یاسر جان آگ کے پاس بَیٹے گفتگو کرنے لگے، گفتگو کے دوران میں نے جب یاسر جان سے کہا کے اللّٰہ جان نے ہمارے بلوچستان کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے ہمارا بلوچستان ایک جنت ہے ہمارے لئے اس دنیا میں، یاسر جان میری بات سُن کر تھوڑا مایوس ہوا کُچھ دیر خاموشی سے سوچنے لگا پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا دوست واقعی ہمارا سرزمین جنت سے کم نہیں ہمیں اپنے سرزمین سے بے حد محبت ہونی چائیے کیونکہ ہم اپنے سرزمین کو اپنا مادر وطن کہتے ہیں، اس سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے سرزمین سے وہی پیار ہونا چاہیے جیسا کہ ہمیں اپنی ماں سے ہے۔ آخر ہمارا مادروطن ماں سے کم نہیں۔ یہ ہماری پرورش کرتا ہے اور ہمیں بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ پر اس وقت ہماری سرزمین قابض کے ہاتھ میں ہے، میں چاہتا ہوں میرا سرزمین بلوچستان کو آزادی کی ایسی صبح نصیب ہوں، جہاں ذہن خوف سے آزاد ہوں، جہاں سر اونچے اٹھے ہوں، جہاں علم پر پاپندیاں نہ ہوں، جہاں بے معنی دیواروں میں انسان کو تقسیم نہ کیا جائے، جہاں انتھک جدوجہد بازو پھیلائے، بلندیوں کو چُھوتی ہو، جہاں عقل کی شفاف ندی مردہ روایات کے صحرا میں خُشک نہ ہو، جہاں الفاظ، سچائی کی گہرائیوں سے نکلتے ہوں بس میری خواہش یہی ہے کے میرے بلوچستان کو آزادی کی ایسی صبح نصیب ہو۔ ہمیں قابض کے خلاف لڑنا ہیں اپنے سر زمین کو اپنے ہاتھوں میں لانا ہے، ہر ایک میں مخلصی ، پختہ ایمان اور حب الوطنی کی خوبی ہونی چاہیے کیونکہ یہ اسے بہتر بناتی ہے، اور یہ بھی کے یہ شہریوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔ یہ اہل وطن کو سرزمین کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب سب سرزمین کی بہتری کے لیے کام کریں گے تو مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ اس طرح، ایک خوشگوار ماحول غالب ہو جائے گا. اس کے بعد حب الوطنی کے ذریعے امن اور ہم آہنگی برقرار رہے گی۔ جب شہریوں میں بھائی چارے کا جذبہ ہوگا تو وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ لہذا، یہ سرزمین کو مزید ہم آہنگی بنائے گا۔ لیکن افسوس ہماری قوم ان قربانیوں کی وجوہات سے لا علم ہیں جو شخصیات اپنے سرزمین کے لوگوں کے لئیے کام کرنا چاہتے ہے لیکن قوم انکا ساتھ نہیں دیتا اور اِسی وجہ سے وہ بہت مایوس ہو جاتے ہے لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہارتے اور لوگوں کو شعور کی طرف گامزن کرنے میں ہر سطح پر کام کرتے ہیں، کاش ہمارے لوگ اگر ان چیزوں کو سمجھ پاتے تو ہم کب کے کامیاب ہو چُکے ہوتے آج ہماری سرزمین آزاد ہوتا ہر کوئی آزاد ہوتا اور ہم اپنے جنت جیسے سرزمین بلوچستان کی ہر اُس چیز کے مالک ہوتے، اصل وجہ یہی ہے کے ہم ابھی تک نقصان کھا رہے ہیں۔ ہم سب میں بہت ساری خوبیاں ہیں ہمیں اپنے خوبیوں کو یوں ضائع نہیں کرنا ہوگا ہم سب کو یوں گمراہ نہیں ہونا ہوچاہیے، اپنے سرزمین کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ شہید یاسر جان کو اپنے مادر وطن سے اور اُنکے لوگوں سے بے پناہ محبت تھا وہ سب کے لئیے ایک جیسا ہی سوچتا کبھی اپنی ذات کو ترجیح نا دیتا شہید نے اپنے سارے خواہشات اور آسائشوں کو بھول کر شہر کے محاذ پہ کئی جگہ اپنی خوبیوں سے وطن کے لوگوں کو شعور دینے کے لیے بے شمار کام کیا۔

میں شہید یاسر بلوچ کے ساتھ ہمیشہ قریب رہا ہوں بچپن سے لیکر جوانی تک میرے پاس شہید کے بہت سے یادیں اور باتیں ہیں جو میرے علاوہ اور کسی کے پاس نہ ہونگے ہم دونوں نے بہت وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارا ہے، لیکن جب شہید یاسر جان نے قابض کے خلاف کام کرنا شروع کیا تو میں ان چیزوں سے بے خبر تھا وہ مجھے کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیتا تھا اور مُجھے کبھی بھی ان پر شک نہیں ہوا، دن گزرتے گئے سال بدلتے گئے، شہید یاسر جان کے ساتھ آخری ملاقات سال ۲۰۲۲ کے چھوٹے عید کے تیسرے دن کو ہوا رات کو میں اور شہید یاسر جان میرے گھر پر ملے وتاخ میں بیٹھے تھے کھانا کھایا تھوڑی دیر تک ہنسی مزاق ہوا تو انہی دوران مُجھ سے یاسر جان نے کہاسنگت میں کل اسلام آباد جا رہا ہوں کچھ ضروری کام سے کُچھ دن وہی رہوں نگا پھر چھٹیوں کے بعد میرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی ٹور پہ آئیں گے میں واپس انہی کے ہمراہ آئوں گا، میں نے کہاں چلو ٹھیک ہے سنگت اپنا خیال ضرور رکھنا۔ اگلے دن جب وہ وہاں پَہنچا یا نہیں لیکن میں نے رات کے وقت سنگت سے رابطہ کیا تو جواب ملا جی بالکل میں خیریت سے پہنچ چُکا ہوں۔ کچھ دن گزرنے کے بعد عید کی چھٹیاں ختم ہوئے میں یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوا، جب میں یونیورسٹی پَہنچا یاسر جان سے رابطہ کیا سنگت کا نمبر بند جا رہا تھا اِسی طرح ۱۵ دن گزر چُکے یاسر جان کا کوئی رابطہ نا تھا میں بہت پریشان ہوا یاسر جان کے گھر والے بھی مُجھ سے رابطے میں تھے پر میں انہیں تسلی نا دے پایا بہت دن گزر گئے کوئی حوال نہ آیا۔ ایک دن میں کلاس نہیں گیا تھا روم میں سویا ہوا تھا جب آنکھیں کُھلی موبائل دیکھا شہید یاسر جان نے ۴ میسیج کیے تھے ان پر لکھا تھا میں پہاڑوں کی طرف آیا ہو اپنا خیال رکھنا اور نادان مت بننا جب بھی موقع ملا رابطہ ضرور کرونگا، جب میں نے میسیج دیکھے تو وہ میسج چھوڑ کے جا چُکا تھا مُجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا میں نے خود سے بہت سوال کیا اُس وقت میں بہت مایُوس ہوا دِل میں بوجھ سا تھا میں نے پہاڑوں پہ جانے والے متوالوں کا صرف ذہن تک سوچا کبھی وہاں تک کا علم نہ تھا، اس وقت اپنے دوست کو اتنی دور جاتے ہوئے دیکھ کر بہت رویا بہت مایوس ہوا میں نے دوبارہ موبائل پہ پھر نظر رکھی اور واپس میسیج پڑھنے لگا تو اُسی وقت ہی قدرتاً یاسر جان دوبارہ واپس آنلائن ہوا میں نے کئی باتیں رکھی اور کہاں یار آپ نے ایسا کیوں کیا اتنا بڑا فیصلہ لیا مُجھے اطلاع تک نا دیا، مُجھے بھی لے جاتے اپنے ساتھ میں یہاں آپکے بغیر نہیں رہ سکتا میرے لئے راستہ نکالو مُجھے بھی لے چلُو تو یاسر جان نے مجھ سے کہا کے سنگت تنظیم کے کچھ اصول ہیں کچھ رازداریاں ہیں اِسی لیے میں نے آپکو اُس وقت نہیں بتایا، میں یہ نہیں کہتا کے آپ یہاں نہیں آسکتے اور ان خواریوں کو برداشت نہیں کر سکتے بلکہ دراصل بات یہ ہے ہم نے پہاڑ پہ جانے کو ایک ٹرینڈ بنا رکھا ہے اکثر نوجوان جذباتی ہوتے ہے تو اِسی راستے کو صرف اختیار کرتے ہے، باقی فرضوں کو بھول جاتے ہے اصل کام تو شہر میں لوگوں کے درمیان کام کرنا ہے، اب سنگت اپنی ذمہ داریاں سنبھالوں اور خُوب کام کرو ہمارے درمیان اُس وقت بہت بات ہوئی میں نے کہا یاسر جان واپس لوٹ آو تو یاسر جان نے کہا مُجھے میرا فکر یہاں لایا ہے مُجھے اپنے وطن کی محبت یہاں لائی ہے میں بہت سوچ سمجھ کے آیا ہوں میرا یہی فیصلہ ہے سنگت، یاسر جان میرے ہر سوال کا جواب بالکل باریک بینی اور شفقت او احترام سے جواب دیتا اُسکی فکر نے مُجھے خاموش کرنے پر مجبور کر دیا میرے پاس اُتنا شعور نہیں تھا کے میں اُسکے باتوں کا جواب دے پاتا تو یاسر جان نے آخر میں کہا کے اب میں چلتا ہو واپس ضرور رابطہ کرونگا۔

اُسی دن سے میں جان چُکا تھا کے اب یاسر جان میرے لئے کبھی آ نہیں سکتا، اب مُجھے اپنے دوست کی راہ پر چلنا ہوگا اور اپنے دوست کا ہمسفر بننا ہوگا اور اپنے دوست کے نصیحت پہ چل کر میں نے یاسر جان کو کبھی مایوس نہیں کیا، اور اپنے قوم کی خدمت میں کام کرنے لگ گیا۔ ہماری اکثر بات ہوتی تو میں اکثر کہتا کے کُچھ ضرورت ہوا تو مُجھے بتانا وہ ہاں میں ہاں ملاتا اور اپنی خواریوں کو برداشت کرتا کبھی بھی مُجھ پہ ظاہر نہ کرتا اور مُجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگا، میں اکثر کہتا کے یاسر جان آپ سب قوم کے مالک ہو تو سنگت کہتا کے ہم قوم کے غلام ہیں قوم ہمارا مالک ہے اُف یہ باتیں دل کو چیر دیتے ہیں یہی ہیں وطن کے اصل وارث جو اپنی ذات کو بھُول جاتے ہیں اپنے عیش و عشرت کی زندگی ترک کر دیتے ہے قوم اور وطن کے لئیے جان قربان کر دیتے ہیں اور پھر خُود کو غلام سمجھتے ہیں قوم کے میں ان جیسے عظیم کرداروں پر جتنا بھی لکھوں وہ کم پڑ جائینگے لیکن انکا شخصیت بلند ہیں، شہید یاسر جان کے ساتھ ساتھ اُن سب شہیدوں اور غازیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی قوم کی بقا و شناخت اور اپنے مادر وطن کی آزادی کے لئے بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں۔ مادر وطن کے لئے شہید ہونے والے ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں ہمیں اسی راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ آج شہید یاسر جان ہم میں نہیں ہے لیکن ہمارے ساتھ انکا فکر ہے، نظریہ ہے، انکی یادیں ہے اور قربانیاں ہے۔ یہ سب باتیں مجھے ہمیشہ یاد آتے ہے اور اب میرے پاس بھی شہید کا نظریہ او فکر ہے میرے راستے کا انتخاب ہی یہی ہے۔

۴ نومبر ۲۰۲۴ کو صبح ۱۲ بجے آپ دشمن فوج کے خلاف نوشکی کی محاذ پر دشمن پر گھات لگائے تیاریوں میں تھے اُس دن بہادری اور جفاکشی سے لڑتے ہوئے آپ نے دشمن کو گٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا آپ نے زخمی حالت میں دشمن سے دو بدو گھنٹوں تک لڑتے رہے اور زخمی حالات میں اپنے کیمپ تک خود کو پہنچایا زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے اور وہی اپنے مادر وطن کے پہاڑوں میں شہادت پائی، اور مادر وطن نے آپکو اپنے سینے میں جگہ دیکر اپنے حقیقی وارث کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لئیے محفوظ رکھا۔ آپکی قربانی آپکی جرات او جیرت آپکے نظریات آپکا ہنر ہمیشہ وطن کے نوجوانوں کے لئیے ایک سبق بن چُکا ہے، آپ ایک عظیم انسان تھے آپکے پاس ایک عظیم مقصد تھا جس کے لئیے آپ نے اپنے ذات کو بُلا دیا اور ہمیشہ مادر وطن کے لئیے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شہید یاسر جان کی قربانی او خواری نے اس مادر وطن کے لوگوں کے دلوں سے خوف کو ختم کر دیا ہیں آج بھی بہت سے نوجوان انہی راستوں پر چل رہے ہیں اور قُربان ہو رہے ہے، ہمارے اوپر شہیدوں کا بہت بڑا قرض ہے یہ جو شعور لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں یہ سب انہی کی قربانیوں کا رنگ ہیں۔ آزادی پسندوں کی اہمیت پر کوئی زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ آخر وہ تو ہیں جن کی وجہ سے ہم اس خوف سے نکل چُکے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انہوں نے کتنا ہی چھوٹا یا بڑا کردار ادا کیا، وہ ہمیشہ بہت اہم ہیں جیسا کہ وہ اس زمانے میں تھے۔ شہید یاسر جان نے اپنے مادر وطن بلوچستان کو آزاد کرنے کے خالص ارادے کے لیے ایسا کیا۔ آزادی کی جنگ میں بیشتر آزادی پسندوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہید یاسر بلوچ نے دوسروں کو ناانصافی کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی۔ وہ تحریک آزادی کا کامل ستون رہا۔ آپ نے لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کی طاقت سے آگاہ کیا۔ یہ سب آپ جیسے کئی جہدکاروں کی وجہ سے ہیں کہ ہم نے کسی بھی قسم کے استعمار اور ناانصافی سے آزادی کی راہ کو روشن دیکھا آزادی کی راستوں کو ترقی ملی۔

شہید یاسر جان کی شہادت پُوری قوم اور تحریک کے لئیے نقصان دہ ہیں، شہید یاسر جان فکری اور نظریاتی دوستوں کو ایک نئے راستے پر لے جا رہے تھے یاسر جان ہمیشہ نئے آئیڈیاز بناتے پھر اُن پر بخوبی دل او جان سے کام کرتے اور انہیں پورا کرتے۔ آزادی کی جنگ میں شہید یاسر جان نے اپنی کوششوں سے بھر پور قوم کے لئیے اور اپنے پہاڑی دوستوں کے لئے دل و جان سے بے شُمار خدمات پیش کی۔ شہید یاسر بلوچ نے قوم او مادر وطن کو آج جو کچھ دیا ہے وہ بے شک قابلِ تعریف ہیں۔ شہید یاسر جان نے مُجھے ایک دن کہا کے ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل لوگ ہر اس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں جس کے خلاف وہ کھڑے تھے۔ ہمیں فرقہ وارانہ منافرت کو درمیان میں نہ آنے دینے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے اور ان فکری، نظریاتی دوستوں کا ساتھ دینا ہوگا اور مادر وطن بلوچستان کی آزادی کے خواب کو پورا کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم ان کی قربانیوں اور یادوں کو ضائع نہیں کریں گے اپنے شہیدوں کو ہم پے پناہ عزت دیں گے۔ شہید یاسر جان ہمارے لئے ایک عظیم کردار ہے، انہوں نے ہمارے لئے اپنا جان قربان کر دیا تاکہ ہم قابض کے خلاف آزاد ایک روشن مستقبل حاصل کر سکیں۔ عام لوگوں کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بہت بڑی بات ہے لیکن آزادی کے متوالے بے لوث ہو کر اپنے سرزمین کے لیے یہ ناقابل تصور قربانی بغیر کسی نقصان کے سوچے سمجھے دیتے ہیں۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس قدر تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی جدوجہد کے لیے پورا قوم ہمیشہ ان کا مقروض ہے۔
تحریر کو میں شہید یاسر بلوچ کے ایک اِقتباس اور شاعری سے ختم کرونگا۔
شہید یاسر جان کے وہ زریں الفاظ یہ ہیں۔

“بامقصد انسان کی زندگی ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی مانند نہیں ہوتا جو سمت سفر نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایک طرف چلنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔ بلکہ اس کہ ذہن میں راستہ اور منزل کا واضح شعور ہوتا ہے ایسا انسان کیسے کہیں رک سکتا ہے اس کو تو ہر طرف سے اپنی توجہ ہٹاکر ایک متعین رخ پہ بڑھنا ہے اور بڑھتے رہنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پالے یہاں تک کہ وہ اپنے منزل پر پہنچ جائے۔”

شہید یاسر جان، آپ کے قرض کا بارگراں ہم پر
نا ہم پیچھے ہٹیں گے آیا جو امتحاں ہم پر
اثر انداز کیا ہوں گی ستم کی آندھیاں ہم پر
نکالیں گے غنیموں کو یہ ہے اک فرض جاں ہم پر


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔