شال طلباء تنظمیں اور ریاستی پالیسیاں
تحریر: شاشان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شال، جو بلوچ سیاست و ثقافت کا مرکز مانا جاتا ہے، ہمیشہ سے بلوچ طلباء اور سیاسی تحریکوں کا گڑھ رہا ہے۔ یہ شہر نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ بلوچ قومی شعور کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ بابا خیر بخش مری جیسے عظیم رہنما نے شال کو اپنی درسگاہ بنایا اور یہاں سے بلوچ قومی تحریک کے لیے سینکڑوں فکری سپاہی پیدا کیے۔
ریاستی پالیسیوں نے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے، تعلیمی اداروں کو نظر انداز کرنا، سہولیات کی کمی اور بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے اقدامات اس سازش کا حصہ ہیں، بلوچستان کے تعلیمی نظام کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا تاکہ بلوچ نوجوان شعور کی روشنی سے محروم رہیں اور اپنی جدوجہد کو آگے نہ بڑھا سکیں۔ تاہم، بلوچ عوام نے ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا۔ وہ ملک کے مختلف شہروں میں دربدر ہوکر علم حاصل کررہے ہیں اور اپنی شناخت کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
شال بلوچ طلباء سیاست کا مرکز رہا ہے، جہاں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او آزاد) جیسی تنظیموں نے جنم لیا۔ ان تنظیموں نے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو منظم کیا بلکہ انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور بھی دیا۔ شال میں ہونے والی سیاسی سرگرمیاں بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں، اور یہیں سے آزادی، خودمختاری، اور سماجی انصاف کی تحریکیں منظم ہوتی ہیں۔
ریاستی جبر اور استحصالی پالیسیوں کے باوجود شال نے ہمیشہ اپنی سیاسی و تعلیمی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ بلوچ نوجوان نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ سیاسی شعور کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شال آج بھی بلوچ قومی تحریک کا دل ہے، جہاں سے ایک نئے اور روشن مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں۔
شال، جو بلوچ قومی شعور کا مرکز اور طلباء سیاست کا گڑھ ہے، ہمیشہ سے ریاستی جبر و استحصال کا سامنا کرتا رہا ہے۔ بلوچ طلباء کی سیاسی بیداری اور تنظیمی جدوجہد کو دیکھ کر ریاست نے اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے تحت ان پر طاقت کا بے دریغ استعمال شروع کیا۔ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز پر چھاپے، طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، اور خوف و دہشت کے ذریعے تعلیمی و سیاسی سرگرمیوں کو ختم کرنے کی کوشش، ریاست کی ہمیشہ سے آزمودہ حکمت عملی رہی ہے۔
جب یہ براہِ راست جبر ناکام ہوا، تو ریاست نے ایک اور مکروہ حربہ اپنایا۔ شال میں مختلف گروپ تشکیل دیئے ہیں جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہے۔ ان گروپس کا مقصد بلوچ طلباء و طالبات کو نشانہ بنا کر انہیں ریاستی ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا ہے، ان گروپس نے دور دراز علاقوں سے آنے والی طالبات کو محبت کے جھوٹے جال میں پھنسایا، ان سے تصاویر اور ویڈیوز کی ڈیمانڈ کی، اور پھر انہیں بلیک میل کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اسی طرح، بلوچ طلباء کو بھی نشانہ بنا کر انہیں ریاستی سازشوں کا حصہ بنایا گیا۔
یہ گروپ ریاستی نوآبادیاتی ذہنیت کے تحت طلباء تنظیموں میں شامل کیے ہیں، تاکہ تنظیموں کے اندر انتشار پیدا کیا جا سکے۔ ان عناصر نے تنظیموں میں اندرونی اختلافات کو ہوا دی، قیادت میں دراڑیں ڈالیں، اور اپنی موجودگی سے تنظیمی اتحاد کو کھوکھلا کیا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جس کا مقصد بلوچ طلباء تنظیموں کی جدوجہد کو کمزور کرنا اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے
ریاستی عناصر نے تنظیموں کے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کرکے اپنے پسندیدہ افراد کو کیبنٹ میں شامل کیا، جو تنظیمی شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ نوآبادیاتی حربے نہ صرف طلباء سیاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ بلوچ نوجوانوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ سیاست کے نام پر فحاشی کو فروغ دینا اور تنظیمی اقدار کو پامال کرنا، ریاست کے اُس نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے، جو بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔
ریاستی نوآبادیاتی ذہنیت کا بنیادی مقصد بلوچ قوم کے شعور کو دبانا اور ان کی قومی تحریک کو کمزور کرنا ہے۔ یہ حکمتِ عملی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ ریاست بلوچ نوجوانوں کی سیاسی بیداری اور اتحاد سے خوفزدہ ہے۔ شال، جو ہمیشہ آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کا مرکز رہا ہے، آج بھی ریاستی جبر اور استحصالی پالیسیوں کا شکار ہے۔ تاہم، بلوچ نوجوانوں کی جدوجہد اور ان کی تنظیمی قوت ان تمام سازشوں کے باوجود قائم ہے۔
بلوچ طلباء تنظیمیں آج ایک نئے چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں، جہاں انہیں نہ صرف ریاستی جبر کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اندرونی سازشوں کو بھی بے نقاب کرنا ہے۔ یہ وقت ہے کہ طلباء تنظیمیں اپنی صفوں کو منظم کریں، اتحاد کو مضبوط بنائیں، اور نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف اپنی جدوجہد کو مزید مؤثر بنائیں۔ ریاستی حربے وقتی طور پر تنظیموں کو کمزور کر سکتے ہیں، لیکن بلوچ قومی شعور اور آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکتے۔ شال، جو ہمیشہ جدوجہد کی علامت رہا ہے، آج بھی ریاستی نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف ایک مضبوط قلعہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔