سنگت سفر خان ایک عظیم سرمچار
تحریر: سنگت بشام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میری سنگت سفر خان سے پہلی ملاقات بولان کے پہاڑوں میں ہوئی۔ میں اسے ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا، لیکن بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ غلامی کی زندگی کو چھوڑ کر سرمچار بننا آسان کام نہیں ہے، لیکن سرمچار بنے بغیر آزادی کی طرف کوئی راستہ بھی نہیں۔
سرمچار اور قوم ایک دوسرے کا سہارا بن کر آزادی کی جنگ لڑتے ہیں۔ سفر خان جیسی شخصیت اپنی جان کی قربانی دے کر اپنی قوم اور ساتھیوں کو اس جنگ میں بھروسہ دیتی ہے۔ جو شہید اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، وہ اپنے قوم اور سرمچاروں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ آزادی تک دشمن کو ایک ایک کرکے ماریں گے اور اپنے مادر وطن کو آزاد کریں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ دشمن سے لڑتا رہے گا اور اپنی آزادی تک دشمن کو شکست دیتا رہے گا۔ لیکن اس جنگ میں گلاب کے پھول ہم سے جدا ہو جاتے ہیں، اور ان پھولوں کے بچھڑنے کا درد صرف ایک ماں اور جنگ میں موجود ایک سرمچار ہی سمجھ سکتا ہے۔
وہ سرمچار، جو اپنے آنے والے مستقبل اور وطن کی آزادی کے لیے جنوری کی سردیاں اور جون جولائی کی گرمیاں برداشت کرتا ہے، اپنے راستے کی ہر مشکل اور تکلیف کو خوشی خوشی سہہ کر اپنی آزادی کا سفر جاری رکھتا ہے۔ آزادی کی راہ میں جب کوئی پھول شہید ہوتا ہے، تو ہر ایک سنگت کا دل چیخنے لگتا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو مضبوط بناتا ہے۔ سرمچاروں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر ہم کمزور پڑے تو قوم کو کون حوصلہ دے گا؟
یہ جنگ شہیدوں نے شروع کی اور ہم اسے قوم کی آزادی یا اپنی شہادت تک پہنچائیں گے۔ شہیدوں کے خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا۔
میں نے سنگت سفر خان کو بولان میں پہلی بار دیکھا۔ وہ خاموش تھا۔ میں نے پوچھا، “آپ کیسے ہو؟”
کہا، “میں ٹھیک ہوں، سنگت۔ تم سناؤ، تم کیسے ہو؟”
میں نے کہا، میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن تم خاموش اور پریشان کیوں ہو؟ ماسٹر سفر خان نے کہا “سنگت، میں پریشان نہیں ہوں۔ بس دشمن کو مارنے کا پلان بنا رہا ہوں۔”
کچھ دن ہم ساتھ رہے، اور مجھے سفر خان کا مزاج بہت پسند آیا۔ ہر وقت اس کے ساتھ بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا۔ اس نے مجھ سے کہا، “سنگت، اگر اس جنگ میں آئے ہو تو اپنا وقت ضائع نہ کرنا۔ ہر وقت دشمن کے خلاف سوچنا۔ اپنی طاقت اور وقت دشمن کو زیر کرنے کے لیے وقف کرنا۔”
کچھ وقت ہم ساتھ رہے، پھر وہ کچھ دن بعد گشت پر نکل گیا۔ اس پہلی ملاقات کے بعد ہماری دوبارہ ملاقات تنظیمی میٹنگ میں ہوئی۔ سنگتوں نے سفر خان کی جنگی صلاحیتوں کو دیکھ کر اسے تنظیمی ذمہ داریاں دیں۔ اسے گشتی کمانڈ سونپی اور جسٹس کمیٹی کا ممبر بھی بنایا۔
اس میٹنگ کے بعد ہم ایک گشت کے لیے نکلے۔ سفر خان بھی اپنی ٹیم کے ساتھ گشت پر نکلا۔ اس کے بعد کافی وقت تک ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ پھر 2024 میں مشن درہِ بولان میں ہماری ملاقات ہوئی۔ میں نے اسے دیکھ کر کہا، “واہ، اڈے قربان، کیسے ہو؟”
وہ مسکرا کر بولا، “آپ ہر وقت مجھے قربان کیوں بولتے ہو؟”
میں نے کہا، “جو قربانیوں کے راستے پر چل رہا ہو، میں ہر اس دوست کے لیے قربان ہوں۔”
پھر میں نے کہا، “آج کے بعد میں تمہیں سنگت سفر خان نہیں، بلکہ قربان کہوں گا، اور آج سے تم میرے قربان ہو۔”
قربان اس پر ہنسے اور بولے، “لفظ قربان بہت معنی رکھتا ہے۔ شاید ہر کوئی اس لفظ کے معیار پر پورا نہ اترے۔ اس جہد میں عظیم قربانی یہ ہے کہ انسان مکمل اپنی ذات کی نفی کرے، اپنی زندگی کی ہر خواہش و لذت کو چھوڑے، اور ہر لمحہ جدوجہد میں رہے۔ دعا کرنا کہ میں اس لفظ قربان پر پورا اتروں۔”
پھر سے ماسٹر سفر خان میرے لیے قربان رہے اور آج بھی میرے قربان ہیں۔ ایک دن میں نے قربان سے پوچھا ، “تم کیوں خاموش رہتے ہو؟ ہر وقت خاموش اور خود میں گم کیوں رہتے ہو؟”
قربان نے کہا”جب موت قریب ہو جائے تو انسان خاموش ہو جاتا ہے۔”
اس پر وہ ہنس پڑے۔ اس دن مجھے سمجھ آیا کہ یہ صرف ایک جنگی اور سیاسی سنگت نہیں، بلکہ اس میں تبسم و مزاح بھی بہت ہے۔
کچھ دن بعد ہم مشن درہِ بولان کے لیے نکلے۔ میں اور سفر خان ساتھ تھے۔ سفر کے دوران خوب مذاق اور شغل کرتے رہے۔ جب ہم مچھ شہر کے قریب پہنچے، تو کہا، “سنگتوں، اب شغل و مذاق ختم۔ اب ہماری مکمل توجہ جنگ پر ہوگی۔”
چار پانچ دن یہی انتظار کیا۔ اس دوران ہماری مکمل گفتگو جنگ رہی۔ جب ہم یہاں سے مشن درہِ بولان کے لیے نکلے، تو سفر خان نے اپنی بہادری اور حکمت سے دشمن کو زیر کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ سفر نہ صرف جنگ کا حصہ تھا بلکہ قوم کے لیے امید کی کرن بھی۔
قربان نے ہم سے کہا، “راستے میں اگر کہیں ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا، تو دو سنگت جنگ کریں گے اور باقی سنگت نکل کر مشن درہ بولان میں دشمن سے لڑیں گے۔”
قربان نے کہا، “ساتھیوں، کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ہے؟ اگر منظور نہیں، تو اپنی رائے کا اظہار کریں۔”
ہم نے جواب دیا، “جی نہیں، قربان، ہمیں منظور ہے۔”
جب ہم چلتے چلتے اپنے ہدف پر پہنچے تو قربان نے کہا، “ہمیں انتظار کرنا ہوگا جب تک مجید بریگیڈ اپنے مشن کا آغاز نہ کرے۔ جب وہ اپنامشن شروع کرے گا، تو ہم اس طرف سے پنجابی فوج کو ایک ایک کرکے مارنا شروع کریں گے اور ایسی جنگ کریں گے کہ ان کی سوچ بھی نہ پہنچ سکے۔ ہمارا مقصد کامیاب ہونا ہے اور یہ ہمارا یقین و ایمان ہے کہ ہم فتح یاب ہوں گے۔ ان شاء اللہ پوری جنگ اور میدان ہمارے کنٹرول میں ہوگا۔”
انہی لمحوں میں مچھ ایف سی کینٹ کے سامنے ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ فدائی فاروق نے اپنے ساتھیوں کو کینٹ کے اندر راستہ دینے کے لیے بارود سے بھری گاڑی کینٹ سے ٹکرا دی اور مشن درہ بولان کا آغاز کر دیا۔
اسی دھماکے کے بعد باقی ساتھی کینٹ کے اندر داخل ہو کر جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ گولیوں کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور پورا مچھ شہر گولیوں اور دھماکوں سے لرز اٹھا۔
ہمارے دوسرے ساتھی دشمن پر طوفان بن کر برس پڑے۔ دشمن اس اچانک حملے اور نئے جنگی طریقہ کار سے اس قدر خوفزدہ ہو گیا کہ اسے سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ ملی۔ کولپور سے لے کر سبی تک پورا علاقہ بی ایل اے کے جانثاروں کے کنٹرول میں تھا۔
دشمن کے ہیلی کاپٹر بھی آئے تاکہ حالات کو کنٹرول کریں، لیکن اس رات ہر چیز ان کے قابو سے باہر تھی۔
ساری رات جنگ جاری رہی۔ صبح ایک ساتھی نے اطلاع دی کہ اس فدائی مشن میں چار ساتھی شہید ہو گئے ہیں۔ کمانڈر نے پوچھا، “کون کون ساتھی شہید ہوئے ہیں؟”
جواب دیا گیا، “فدائی بالی نادر، فدائی آفتاب، فدائی صدام، اور فتح اسکواڈ کے سنگت کاشف۔”
کمانڈر نے کہا، “ندر پہ شہیداں۔”
باقی سنگت دشمن سے لڑتے رہے۔ تین دن تک مچھ شہر اور پورا علاقہ بی ایل اے کے کنٹرول میں رہا۔ اس مشن میں مزید سنگت، یعنی فدائی عطا، فدائی جمال، فدائی قاسم، فدائی سلال، فدائی نظام، فدائی حافظ ذیشان، فدائی حمل مومن، اور فدائی عبدالودود ساتکزئی، وطن پر فدا ہو گئے۔
پھر مرکز سے پیغام آیا کہ مشن درہ بولان کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۔ “اب تم لوگ واپسی کی تیاری کرو کیونکہ ہمارا مقصد کامیابی کے ساتھ پورا ہو چکا ہے۔”
مرکز کے پیغام میں مزید کہا گیا، “اتنی کم وسائل کے باوجود تین دن تک پورے مچھ شہر اور کولپور سے لے کر سبی شاہراہ کو مکمل کنٹرول میں رکھنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ دشمن کے پاس تمام جنگی وسائل ہونے کے باوجود وہ تمہارے جذبے، ہمت، اور جنگی حکمت عملی کے سامنے بے بس رہا۔ تم ایک نظریے کے تحت خون کے آخری قطرے تک لڑ سکتے ہو، جبکہ دشمن کا تنخواہ خوار سپاہی اپنا ایمان اور حوصلہ کھو چکا ہے۔”
مرکز کے فیصلے کے بعد ہم سنگت کمانڈر کے ساتھ وہاں سے نکل گئے۔ ٹھنڈی رات میں سفر کرتے ہوئے ایک جگہ پہنچ کر قربان نے کہا، “تھوڑا آرام کرتے ہیں۔”
ہم بیٹھ گئے۔ کمانڈر نے کہا، “سنگتوں، آپ لوگوں سے ایک سوال ہے۔”
ہم نے کہا، “جی پوچھیں۔”
کمانڈر نے کہا، “ہم اس مشن میں اپنے شہید دوستوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، وہ دوست جو بلوچ وطن اور فکرِ آزادی پر قربان ہوئے ۔ان سنگتوں کا کی جسمانی جدائی پر آپ لوگوں کی کیا کیفیت ہے؟”
ہم بس یہی سوچ رہے تھے کہ دوستوں نے اتنی بڑی قربانی دے کر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ لیکن سارے ساتھی خاموش تھے اور اس انتظار میں تھے کہ قربان خود اس بارے کہا کہتے ہیں۔
تھوڑی خاموشی کے بعد سنگت خود بولنا شروع کیا:
ساتھیوں ! سنگتوں نے اپنا فرض پورا کرلیا ہے لیکن اب یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آگئی ہے کہ ہم اس فکری و قومی مقصد کو منزل کی جانب لئے جائیں۔ ان قربانیوں کی قیمت ہمیں دو صورتوں میں چکانی ہوگئی۔ اول ہماری آزادی ،دوم اس آزادی کے لئے اپنی سروں کی قربانی۔ ہم اپنے ساتھیوں کے مقصد کو لے کر آگئے بڑھیں گئے۔ یہاں تک کہ ہمیں اپنی منزل مل جائے ۔ہماری منزل آزادی یا مرگِ شہادت۔”
اس کے بعد ہم نے آرام کیا اور آرام کے بعد اپنا سفر جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد کیمپ میں پہنچے۔ اس کیمپ میں ہم نے قربان کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ ایک دن قربان نے مجھ سے کہا، “میں جا رہا ہوں، اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔”
میرا قربان مجھے رخصت کر کے نکل گیا۔ کچھ دن بعد میں کیمپ میں بیٹھا تھا کہ ایک سنگت نیٹ ورک سے آیا۔ ہم نے اس سے حال احوال پوچھا۔ سنگت نے خوشی کے لہجے میں کہا، “ساتھیوں، مبارک ہو!”
میں نے پوچھا، “کیا ہوا ہے؟”
کہا، “قربان لشکر نے اسکِلکو میں فوج پر ایک زبردست حملہ کیا ہے اور دشمن فوج کے کیمپ پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ رات بھر جنگ جاری رہی۔ دشمن کے پوسٹ پر قبضہ کرنے کے بعد صبح کے انتظار میں رہے۔ صبح زمینی فوج اور ہیلی کاپٹر آئے، لیکن دوستوں نے دوبارہ زبردست حملہ کیا۔ ماسٹر سفر خان نے مارٹر سے ہیلی کا نشانہ ایسا بنایا کہ تھوڑی سی خطا رہ گئی، اور ہیلی کاپٹر خوف کے مارے واپس نکل گئے۔”
یہ سنتے ہی میرے منہ سے بے اختیار نکلا، “واقعی واقعی، اڑے قربان، منی قربان، ماسٹر قربان۔”
اس کے بعد قربان سے میری ملاقات شور پارود میں ہوئی۔ جب ہم ساتھیوں کے ہمراہ شور پارود پہنچے تو وہاں مجھ سے ایک سنگت نے پوچھا، “سنگت، ماسٹر سفر خان کو دیکھا ہے؟”
میں نے کہا، “نہیں یار۔”
اس نے کہا، “تمہارا قربان یہی پر ہے۔”
یہ سن کر میں بہت خوش ہوا۔ کچھ لمحوں کے بعد قربان آیا۔ ہنستے ہوئے بولا، “آپ میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔”
میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا، “شہادت تک نہیں چھوڑوں گا۔”
قربان نے کہا، “دل پر مت لینا، میں مذاق کر رہا ہوں۔”
پھر بولا، “مذاق چھوڑو، ہیروف میں کیا کچھ سیکھا ہے تم نے؟”
میں نے جواب دیا، “بہت کچھ سیکھا ہے۔ لیکن جو سب سے زیادہ سیکھا، وہ سنگتوں کی قربانی کا درس تھا۔ یہی درس کہ ہمیں مکمل مخلصی، محنت، اور لگن کے ساتھ دشمن پر بڑی سے بڑی وار کرنے کے لیے بھرپور تیاری کرنی ہوگی۔”
اس کے بعد ہم مشن ہیروف کے شہیدوں کو یاد کرتے رہے اور ان پر بات کرتے رہے۔ ہم طالب اور خالد، نوید اور طیب، رضوان اور چیف کامی، شاویز اور میرک، اور ماہلو کو یاد کرتے رہے۔ فتح اسکواڈ کے سنگت شفقت عرف دیار پر بھی بات ہوئی۔ آخر میں قربان نے کہا، “اب ہمیں یہی سوچنا ہے کہ دشمن کو کب اور کیسے مارنا ہے۔ ہمیں اس جدوجہد کے ساتھ مخلص اور ایماندار رہنا ہے، اور ہر وقت سچائی اور وفاداری کا ساتھ دینا ہے۔”
اس ملاقات کے بعد ہم اپنے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔
ایک دن ایک پہاڑی پر نیٹ ورک پر ایک دوست سے حال احوال ہوا۔ دوست نے بتایا، “سنگت نوشکی شہر میں سنگتوں نے فوج پر حملہ کیا ہے۔ اس حملے میں سنگت عدنان شہید ہو گئے ہیں اور سنگت سفر خان، تمہارے قربان، زخمی ہو گئے ہیں۔”
پھر مزید خبر ملی کہ سنگت سفر خان زخمی حالت میں خون بہنے کے باعث شہید ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر میرے دل، روح، اور وجود کے ہر گوشے سے بس یہی صدا آئی:
“قربان رخصت اف اواریں سنگت۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔