ریکوڈک میں سعودی عرب کی ممکنہ سرمایہ کاری کو بلوچ عوام کے ساتھ جبر کے طور پر دیکھا جائے گا – صبیحہ بلوچ

229

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ رپورٹس کے مطابق، سعودی عرب اور پاکستان کی حکومت کے درمیان ریکوڈک مائننگ پراجیکٹ میں 15 فیصد حصے کی خریداری کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ یہ اقدام بلوچ عوام کی مرضی اور رضامندی کے بغیر بلوچستان کے وسائل اور دولت کے استحصال کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ، یہ قاہرہ اعلامیہ کے آرٹیکل 11 اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 1(2) اور 55 کی خلاف ورزی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام جو طویل عرصے سے اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں، اس معاملے میں مکمل طور پر نظرانداز کیے گئے ہیں۔ سعودی عرب، جس کے بلوچوں کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں، بخوبی آگاہ ہے کہ بلوچستان میں ایک طویل تنازع جاری ہے۔ اس لیے اسلام آباد کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ جو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف ہو، نہ صرف غیر منصفانہ ہوگا بلکہ اسے شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر صبیحہ نے کہا کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل، درحقیقت، پاکستانی حکومت کی کرپشن اور مالی بدعنوانی کے ازالے کے لیے لوٹے جا رہے ہیں، جس سے بلوچستان کے وسائل کے استحصال میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال ایسے معاہدوں سے جڑی ہوئی ہے جو وسائل کے بے دریغ استحصال اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔ ان حالات میں، کسی بھی غیر ملکی ادارے کی جانب سے اس خطے میں نام نہاد میگا پروجیکٹس میں سرمایہ کاری نہ صرف استحصال میں شراکت کے مترادف ہے بلکہ یہ ایک مظلوم قوم کے خلاف جبر کی حمایت کے زمرے میں بھی آتا ہے، جس کے نتیجے میں شدید مخالفت کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچوں اور عربوں کے درمیان طویل عرصے سے دوستی، ثقافتی تعلقات، باہمی احترام اور یکجہتی کا رشتہ قائم رہا ہے۔ تاہم، پاکستانی ریاست کی جابرانہ پالیسیاں مقامی ثقافتوں اور روایات کو مٹانے کے درپے ہیں، جس سے ان تاریخی تعلقات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ثقافتی اتحادیوں کے درمیان تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں سعودی عرب کی ممکنہ سرمایہ کاری کو بلوچ عوام کے ساتھ جبر کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ایسے اقدامات سعودی عرب کے خلاف نفرت اور دشمنی کو ہوا دے سکتے ہیں، کیونکہ انہیں بلوچ قوم کے خلاف ناانصافیوں اور استحصال میں شراکت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس لیے ہم سعودی عرب سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ایسے استحصالی منصوبوں کا حصہ نہ بنے۔