راستے ملتے ہیں خود میں
تحریر: گرو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب سفر سے واپس اوتاگ پر پہنچے تو سنگتوں سے سلام دعا کے بعد بیٹھ گئے۔ دوستوں نے چائے بنائی، سب نے چائے پی اور باتوں میں مشغول ہو گئے۔ اتنے میں دو دوست نیٹ ورک پر گئے تھے۔ انہوں نے آکر سب کے سامنے خبریں پڑھنی شروع کیں۔ ان خبروں میں آپریشن ہیروپ کے دوران ہونے والے حملوں کی تفصیلات تھیں، جہاں بی ایل اے نے دو سنگتوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کیں۔ ان میں سے ایک فدائی زروان ارپ حمل اور دوسری فدائی ماہل ارپ زیلان کُرد تھیں، جو بی ایل اے مجید بریگیڈ ونگ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان دونوں نے بیلہ میں بارود سے بھری گاڑی دشمن کے کیمپ سے ٹکرا کر دشمن کی طاقت کو نیست و نابود کیا اور اپنے دوسرے فدائی سنگتوں کے لیے کیمپ کے اندر داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا تھا، یوں آپریشن ہیروپ کا آغاز ہوا۔
جب میری نظر فدائی ماہل کی تصویر پر پڑی تو خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔ ایک دوست نے آواز دے کر کہا، “تمہیں آرام کرنا چاہیے۔ دو چار دن سے سفر میں ہو، تو تھوڑا آرام ضروری ہے۔” میں نے چائے پی اور کچھ دیر کے لیے دوستوں کو رخصت کرکے آرام گاہ کی طرف چل پڑا۔ وہاں دوستوں نے گھاس لگا کر سونے کے لیے ایک جگہ بنائی تھی۔ میں نے اپنی بندوق، جاٹہ، اور بوتل کو ایک طرف رکھا اور جوتے کھول کر لیٹ گیا تاکہ آرام کر سکوں۔
جب نیند میں جانے لگا تو پھر وہی تصویر ذہن میں آ گئی، جہاں ایک بہادر بلوچ بیٹی اے کے-47 ہاتھ میں تھامے، مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ وکٹری کا نشان بنا رہی تھی۔ وہ بلوچستان کے خوبصورت پرچم کے آگے بیٹھی تھی، گویا کسی بڑی کامیابی کی خوشی میں انتظار کر رہی ہو۔ یہ دیکھ کر مجھے لُمہ شارل یاد آئیں، جب میں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس وقت نیوز میں دیکھا تھا کہ ایک بلوچ خاتون فدائی نے خود کو قربان کر کے دشمن کی کمر توڑ دی ہے۔ بی ایل اے کے بیان کے مطابق، فدائی شارل دو بچوں کی ماں تھیں۔ یہ سن کر حیرت ہوئی کہ ہمارا جنگ اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ ایک ماں اپنا سب کچھ چھوڑ کر فدائی بن جاتی ہے، تاکہ اپنی آنے والی نسل کو آزادی دلا سکے۔
جب میں پڑھائی اور سیاسی کاموں میں مصروف رہا، تو شاید اس بات پر زیادہ غور نہ کیا، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد جب کسی سفر پر تھا، تو ایک دوست نے بتایا کہ تربت میں ایک فدائی حملہ ہوا ہے، جس کی ذمہ داری بی ایل اے مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔ فدائی ایک بلوچ لڑکی تھی، جس کا نام سومیہ تھا۔ وہ بانی بلوچ جنرل اسلم اور لُمہ یاسمین کی بہو، اور فدائی ریحان جان کی منگیتر تھی۔ اس دن مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں شاید کچھ کھو دیا ہے۔
اپنے کاموں اور ذمہ داریوں میں مصروف رہ کر، بحث و مباحثے، کتابوں، اور سیاسی سرگرمیوں کے باوجود، ایک خلا محسوس ہوتا تھا۔ میں یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ یہ خلا کیوں ہے۔ لیکن اپنے فرائض پورے کرنے کی غرض سے، میں ہمیشہ اٹھتا اور سوتا رہا۔
ایک دن ایک دوست نے فون پر اطلاع دی کہ ایک احتجاج ہو رہا ہے، جہاں مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اپیل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، “تم بھی آنا تاکہ ان ماؤں کو کچھ دلاسہ دے سکیں۔” ہمیشہ کی طرح میں وہاں پہنچا اور دیکھا کہ نیوز والے جمع ہیں، سڑک کے سامنے کچھ نوجوان نہا دھو کر بیٹھے ہیں، اور مائیں باری باری نیوز والوں سے بات کر رہی ہیں، اپنے پیاروں کے بارے میں بتا رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ یہ منظر کوئی نیا نہیں تھا، بلکہ وہی تھا جو میں اپنی زندگی میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔
لیکن اُس دن، اچانک میری نظر ایک ننھی سی بچی پر پڑی۔ اس کی خوبصورت آنکھیں، گڑیا جیسے بال، اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ، جن میں وہ اپنے والد کی تصویر تھامے بیٹھی تھی۔ تصویر پر لکھا تھا “Date of Missing” اور تفصیلات درج تھیں۔ جب میں نے ایک بہن سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ بچی اُس لڑکے کی بیٹی ہے، جو کئی سالوں سے پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بلوچ ہونے کے جرم میں قید ہے۔
ہمیشہ کی طرح، ماؤں کو تسلی دے کر، میں نے رات وہیں گزار دی۔ صبح جب سورج طلوع ہونے والا تھا، تو میں نے دیکھا کہ وہی بچی اپنے ابو کی تصویر کو گلے لگا کر سوئی ہوئی تھی۔ اُس لمحے، میرے لیے یہ صبح کسی تاریکی سے کم نہ تھی۔ مجھے صرف گمشدہ لوگ، بہتا ہوا خون، آنسوؤں کے چشمے، بکھرے ہوئے خواب، اور سڑے ہوئے لاشے دکھائی دے رہے تھے۔
اسی دن مجھے یہ سمجھ آیا کہ لُمہ شارل نے اپنے دو بچوں کو چھوڑ کر اس جنگ کو کیوں چنا۔ سمیہ نے اپنے خوابوں بھری دنیا کو ترک کرکے اس ویرانے کو آباد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اور مجھے اپنی کھوئی ہوئی چیز مل گئی، جسے میں سالوں سے تلاش کر رہا تھا۔
میں نے محسوس کیا کہ ان ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں کے ساتھ سڑکوں پر بیٹھ کر صرف تسلی دینا کافی نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے پیارے اس طرح واپس آئیں گے۔ بلکہ شارل، سمیہ، ماہل، اور دیگر نوجوانوں کی طرح اس جنگ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر ان مظلوموں کو انصاف دلانا ہوگا۔ ان کے آنسو پونچھنا ہوگا۔
جیسا کہ جنرل اسلم نے کہا:
“جب سامنے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو، تو تم اسے پھول پیش نہیں کر سکتے۔”
آج، جب دوبارہ فدائی ماہل کی تصویر کو دیکھا، تو یہ سمجھا کہ جنگ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمہیں کسی نہ کسی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ لیکن فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ تم اسے اپناتے ہو یا یہ خود تمہیں اپنا لیتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔