دفعہ 144
ٹی بی پی اداریہ
متنازعہ صوبائی حکومت نے بلوچستان بھر میں دفعہ 144 نافذ کردیا ہے تاکہ جبری گمشدگیوں اور حراستی قتل کے خلاف جاری احتجاج اور دھرنوں کو ختم کیا جاسکے۔ زبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف منظم عوامی احتجاج کے سبب وہ بازیاب ہوئے لیکن ظریف بلوچ اور نوید بلوچ کے لواحقین اپنے پیاروں کے حراستی قتل کے خلاف ضلع کیچ کے مرکز تربت میں شہید فدا چوک پر دھرنے دے رہے ہیں۔
ظریف بلوچ کو تمپ کے علاقے دازن سے ان کے گھر میں لواحقین کے سامنے فرنٹیر کور کے سپاہیوں نے تشدد کرتے ہوئے جبری گمشدہ کیا اور ایک دن بعد اُن کی تشدد زدہ لاش دازن میں برآمد ہوئی۔ ظریف بلوچ کے لواحقین کو احتجاج سے روکا گیا اور انہیں دھمکیاں دے کر مجبور کرکے ظریف بلوچ کی تدفین کی کروائی گئی۔
ضلع کیچ میں ظریف بلوچ حراستی قتل کے خلاف احتجاج پہلا نہیں ہے بلکہ شہید فدا چوک سے بالاچ بلوچ کی حراستی قتل سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی، جس سے ریاستی جبر کیخلاف پورے بلوچستان میں منظم عوامی احتجاج ہوئے اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنہ دیا گیا لیکن ریاستی مقتدر ادارے اب بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے غیر قانونی اقدام سے بلوچ قومی آواز کو دبانا ممکن نہیں ہے۔
دنیا بھر میں نئے سال کی ابتدا جشن سے کیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں نئے سال کی ابتدا دفعہ 144 کے سائے اور حراستی قتل کے خلاف احتجاج سے ہورہا ہے۔ زبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پر منظم عوامی احتجاج سے واضح ہے کہ دفعہ 144 لگانے سے عوامی احتجاج کو روکا نہیں جاسکتا اور ریاستی جبر پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اب بلوچ قوم احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی۔