دالبندین جلسے کے موقع پر گاڑیوں کو تحویل میں لینا اچھا عمل نہیں – جمعیت رہنماء ولی محمد بڑیچ

242

جمعیت علماء اسلام کے رہنماء حاجی ولی محمد بڑیچ نے سوشل میڈیا پر دالبندین جلسے و گاڑیوں کو تحویل میں لینے کے حوالے سے ایک ایک پوسٹ کرتے ہوئے کہا  ہے کہ نوشکی، دالبندین، چاغی، نوکنڈی تا تفتان کابلی گاڑیوں کو چلانے کی باقاعدہ اجازت تو نہیں مگر نرمی اتنی زیادہ کہ کبھی کوئی پوچھتا بھی نہیں، دسیوں سالوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے یہ چشم پوشی بھی اس لئے کی جارہی کہ یہ انتہائی پسماندہ علاقے ہیں یہاں کے لوگ بہت ساری پاکستانی سہولیات سے محروم ہیں یہ ریلیف دے کر ہمارے حکمران بلوچستان کے اس پسماندہ علاقوں کے باسیوں کا کچھ قرضہ اتارنا چاہتے ہیں مگر ایک ایسے موقع پر جب ماہ رنگ بلوچ کا جلسہ ہورہا ہے بلوچ علاقوں سے ان کے موقف کے حامی لوگ اس میں شرکت کر رہے ہیں ان کے پاس آدھے سے زائد گاڑیاں شائد کسٹم نان پیڈ ہوں ایسے موقع پر انہیں پکڑنا یا نہ چھوڑنا اور تنگ کرنا اچھا عمل نہیں۔ اگر مقتدر قوتیں ان کا جلسہ پاکستان یا ملک کے نقصان میں سمجھ رہے ہوتے تو انہیں جلسہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے جب اجازت دے دی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جلسہ ملک و ملت کیلئے نقصان دہ نہیں یہ ان کا جمہوری حق ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے تو تو پھر جلسہ کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کرنا بھی حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے جیسے کہ دوسرے بہت سارے جلسے حکومت کے خلاف ہورہے ہوتے ہیں مگر یہی حکومتیں اپنے مخالفت میں ہونے والے جلسوں کو تحفظ بھی دیتی ان کیلئے آسانیاں بھی پیدا کرتی ہیں ہماری جمہوری روایات یہی تقاضا کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ تعاون کریں الٹا انہیں تنگ کرنا اور ان کیلئے رکاوٹیں پیدا کرنا یا میسر سہولیات ختم کرنا یہ مزید اشتعال کا باعث بنیں گے لہٰذا ان دنوں نئی سختیاں پیدا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہاں اگر یہ پروگرام بلوچستان سے باہر دوسرے صوبوں میں ہورہا ہوتا تو حق بنتا بلکہ ضروری تھا کہ ان کے جلوسوں میں گاڑیاں چیک کرلیتے کہ ایسے مواقع پر دو نمبر کے کارباری لوگ موقعہ سے فائدہ اٹھاکر اپنی دو نمبر گاڑیاں گزار رہے ہوتے ہیں اب تو وہ بات بھی نہیں اب تو سب کچھ بلوچستان کے صرف محدود ایک بلوچ علاقہ میں ہورہا ہے جہاں سالوں سے یہ گاڑیاں گھوم رہی ہوتی ہیں۔

جمعیت رہنماء کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ اور ان کا اپنا کابینہ صوبائی حکومت از خود ایسے اشتعال انگیز فیصلے کرتی ہے کہ ایسے موقع پر کابلی گاڑیوں کو چیک کیا جائے تو میرے خیال یہ غلط ہوگا اگر انہیں اوپر وفاقی اداروں کی طرف سے آرڈر ہے تو بحیثت بلوچستان کے سب سے بڑے عوامی نمائندہ اور بظاہر قائد ایوان کے بلوچستان کی عوام خصوصاً بلوچ عوام کا نمائندہ بن کر وفاقی اداروں اور بلوچوں کے مابین ایک پل کا کردار ادا کریں۔