دالبندین جلسہ ، قافلے پہنچنا شروع

323

دالبندین میں بلوچ یکجتی کمیٹی کے زیر اہتمام کل ہونے والا جلسہ بنام بلوچ نسل کشی کے دن کی مناسبت سے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئے۔

بلوچ یکجتی کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، علاقے میں موبائل انٹرنیٹ کی بندش سے لوگوں کو سخت دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

جلسے کے تیاریوں کے حوالے سے بلوچ یکجتی کمیٹی مرکزی رہنما کامریڈ گلزادی بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کے جلسے کی تمام تیاریاں آخری مراحل میں ہے اس سلسلے میں میں صرف بلوچستان بلکہ افغانستان اور ایران میں بسنے والے بلوچ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس جلسے میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور وہ سب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سننے کیلئے بے تاب ہیں کیونکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اسوقت انسانی حقوق کے حوالے سے وہ ایک طاقتور آواز بن چکی ہے اور لاپتہ افراد کی لواحقین کیلئے ایک امید ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ایران میں بسنے والے بلوچ اس جلسے میں شرکت کیلئے کوششیں کر رہے ہیں مگر ریاست نے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے جلسے میں شرکت کرنے والوں کا راستہ روک رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح گوادر راجی مچی کے وقت ریاست نے جو رویہ اپنایا بلوچ خواتین پر تشدد کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے لیکن جو ردعمل بلوچستان کے لوگوں کی طرف سے اور بلوچ یکجتی کمیٹی کی طرف سے آیا وہ بھی ریاست نے دیکھ لیا آج ایک مرتبہ پھر وہی رویہ اپنایا جا رہا ہے مگر ہم اسے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ کھبی جھکا نہیں ہے بلوچ کھبی تھکا نہیں ہے اگر ایک مرتبہ پھر ریاست نے دالبندین جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش کی تو اسکا ری ایکشن بہت خطرناک ہوگا کراچی میں ہمارے ماؤں بہنوں کی دو پٹے اتارے گئے انکے پاکیزہ چادروں پر ہاتھ ڈالا گیا ان پر تشدد کیا گیا بلوچ راجی مچی دالبندین میں ہونے والے جلسے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت لوگوں کی کثیر تعداد یہاں پہ موجود ہے اور دالبندین کے باشعور عوام نے جس طرح ہمیں عزت اور شرف دی یہ خود ریاست کے بیانیے کو یکسر مسترد کرنے کیلئے کافی ہے بلوچ قوم کو اپ اب تشدد سے ختم نہیں کر سکتے بلوچستان و بلوچ قوم اب آپ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں بلوچ قوم کے نوجوانوں کے شعور کو آپ تشدد مسخ شدہ لاشوں اور زندانوں سے ختم نہیں کرسکتے یہ آپ کی خام خیالی ہوگی کہ اس طرح کے اقدامات سے آپ بلوچوں کو زیر کرو آپ اس غلط فہمی میں کھبی نہ ریے کیونکہ آج جلسے سے ایک دن قبل بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے ہزاروں لوگوں کا جمع ہونا اور وہ لواحقین بھی موجود ہے جنکے پیارے ریاست نے تشدد کرکے انہیں شہید کیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ بلوچ نسل کشی سے باز نہیں آتے تشدد ترک نہیں کرتے ہوش کے ناخن نہیں لیتے قتل و غارتگری سے پیچھے نہیں ہٹتے تو بلوچ کا جو ردعمل ہوگا آپکو افسوس کے سوا کچھ نہیں ملے گا اب پُرامن لوگ پرامن احتجاج کرتے ہیں کوئی جنگ نہیں چاہتے ہیں اگر ہم کوئی جنگ کرتے ہیں تو وہ بھی امن کیلئے کیونکہ ہم نے بہت لاشیں اٹھائی بہت خونریزی دیکھ چکے اجتماعی قبریں دیکھ چکے اب بس کریں ہم مزید لاشیں نہیں اٹھاتے لہٰذا ہمارے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہ کیجئے وگرنہ اسکا ردعمل بہت سخت ہوگا۔