دالبندین اجتماع: مزید لاشیں نہیں اٹھائیں گے، ہر لاپتہ فرد زندہ چاہیے

265

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں ہونے والے اجتماع میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔

شہر کے نواح میں واقع ڈنو میدانی میں صبح 11بجے شروع ہونے والا یہ اجتماع شام کو پانچ بجے اختتام پزیر ہوا۔

دالبندین کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ دالبندین میں اس سے پہلے اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا جس میں پہلی مرتبہ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

صحافیوں کے مطابق شرکاء کی بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی جو کہ دالبندین اور ضلع چاغی کے دیگر علاقوں کے علاوہ رخشاں ڈویژن کے دیگر اضلاع سے آئے تھے۔

ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام یہ اجتماع ’بلوچ نسل کشی یادگاری‘ کے نام سے منعقد کیا گیا تھا۔

اس اجتماع میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے بھی شرکت کی اور ان کے ہاتھوں میں ان کے پیاروں کی تصاویر تھیں۔

اجتماع سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، سمّی دین بلوچ ، صبغت اللہ شاہ جی، وہاب بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’ریاست بلوچوں کو یہ باور کروا رہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے اور ان کی موت اور زندگی ریاست کے ہاتھ میں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بلوچ مزید لاشیں نہیں اٹھائیں گے بلکہ ان کو ہر لاپتہ فرد زندہ چاہیے اور اسی طرح انہیں اپنی سرزمین اور وسائل چاہیے۔ اس سرزمین کی دفاع کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہر جابر کا مقابلہ کیا اور غلامی قبول نہیں کی۔

انھوں کہا کہ بلوچوں کو یہ چاہیے کہ وہ خاموشی کو ختم کریں اور ریاست سمیت پوری دنیا کو بتادیں کہ انھیں ان کی نسل کشی کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔

انھوں کہا کہ اسی طرح پوری دنیا کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ یہاں جو بھی وسائل ہیں وہ بلوچوں کے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر ان کے حوالے سے کوئی معاہدہ قبول نہیں ہے۔

دیگر مقررین نے کہا کہ حقوق انسانی کی پامالی کے ساتھ بلوچستان میں لوگوں کا معاشی استحصال بھی جاری ہے جس کی واضح مثال چاغی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہاں سونے اور تانبے کے ذخائر کے علاوہ بڑے پیمانے پر دیگر معدنیات پائی جاتی ہیں لیکن یہاں کے لوگ انتہائی پسماندگی سے دوچار ہیں۔

مقررین نے کہا کہ چاغی میں ایٹمی تجربات کی وجہ سے تابکاری کے اثرات سے لوگ متاثر ہورہے ہیں لیکن ان کو تابکاری کے اثرات سے بچانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

مقررین نے حقوق انسانی کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالیوں کی نوٹس لیں۔

اس جلسے سے قبل ضلع چاغی میں جمعرات کو موبائل انٹرنیٹ کو بند کیا گیا تھا، جبکہ مقامی صحافیوں کے مطابق آج صبح موبائل فون سروس کو بند کرنے کے علاوہ پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن کو بھی بند کیا گیا تھا۔