لسبیلہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چاکر بگٹی کے لواحقین نے انکی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کئی خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت بن چکا ہے۔ ایک فرد کے اغواء کے ساتھ پورا خاندان اذیت سے گزرتا ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
خاندان نے بتایا کہ ان کا بیٹا، چاکر بگٹی ولد عرض محمد، 15 نومبر کو جبراً لاپتہ کیا گیا۔ گمشدگی سے قبل چاکر کو سٹی تھانہ حب کے ایس ایچ او سعود درانی نے اس بنیاد پر گرفتار کیا کہ اس کے پاس نئی 125 موٹر سائیکل ہے اور اس کے کاغذات لانے کا کہا۔
انہوں نے کہاکہ کاغذات پیش کرنے کے باوجود چاکر کو کئی گھنٹے تھانے میں روکے رکھا گیا۔
جب مسلسل درخواستوں کے بعد چاکر کو رہا کیا گیا تو تھانے کے باہر کھڑی ایک کالے شیشوں والی گاڑی نے اس کا پیچھا کیا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے حاصل کردہ ویڈیوز سے واضح ہوتا ہے کہ گاڑی تھانے کے باہر انتظار کر رہی تھی۔ جب چاکر اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ گھر کی طرف روانہ ہوا تو آر سی روڈ پر ٹویوٹا کمپنی کے سامنے اسے اغواء کیا گیا۔
خاندان نے الزام لگایا کہ چاکر بگٹی کی گمشدگی کے پیچھے ایس ایچ او سعود درانی کا ہاتھ ہے۔ چاکر کی نئی موٹر سائیکل بھی اب تک تھانے میں موجود ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سعود درانی اس غیرقانونی عمل میں ملوث ہے۔ متعدد بار تھانے جا کر چاکر کی گمشدگی کے بارے میں دریافت کیا گیا، لیکن ایس ایچ او درانی نے دھمکیاں دیں اور کہا کہ “چاکر جہاں ہے، وہاں جا کر تلاش کرو، میرے پاس نہیں۔”
چاکر کی گمشدگی کے دو دن بعد جب متاثرہ خاندان نے بھوانی کے قریب دھرنا دیا تو انتظامیہ کے ایک اہلکار، امام بلوچ، نے یقین دہانی کروائی کہ دو دن میں گمشدگان کو واپس لایا جائے گا۔ لیکن دو دن دو مہینے میں تبدیل ہو گئے، اور چاکر بگٹی سمیت خاندان کے دو دیگر افراد، جنہیں پولیس کی سربراہی میں خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کیا تھا، ابھی تک لاپتہ ہیں۔
خاندان نے میڈیا کے توسط سے مطالبہ کیا کہ ایس ایچ او سعود درانی اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غیرقانونی اور غیرانسانی عمل ہے، اور حکام بالا و عدالتوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
آخر میں انہوں نے اعلان کیا کہ اگر 48 گھنٹوں کے اندر چاکر بگٹی اور دیگر افراد کو رہا نہ کیا گیا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی ذمہ داری ان اداروں اور حب پولیس پر ہوگی، جو جبری گمشدگیوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔