حب: لاپتہ افراد کے لواحقین کا بھوک ہڑتالی کیمپ اختتام پذیر، احتجاجی مظاہرہ اور ریلی

30

بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے قائم تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ آج اختتام پذیر ہو گیا۔ کیمپ کے آخری روز لواحقین نے حب پریس کلب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی، جو شہر کے مختلف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی واپس پریس کلب کے سامنے ختم ہوئی۔

یہ بھوک ہڑتالی کیمپ جبری گمشدگی طور پر لاپتہ دو بھائیوں جنید حمید اور یاسر حمید کے لواحقین کی جانب سے لگائی گئی تھی، جو گذشتہ سال اکتوبر میں حب چوکی اور قلات سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔

کیمپ میں دیگر لاپتہ افراد کے خاندانوں کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین، سیاسی کارکنان، اور شہریوں نے بھی شرکت کی۔

کیمپ میں شریک دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین میں بلوچ کارکن راشد حسین کی والدہ، بی ایس او آزاد کے طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیماء بلوچ، لاپتہ چاکر خان بگٹی اور نوروز اسلام کے اہلخانہ، اور نصیر جان کے والدہ سمیت پنجگور کے رہائشی ظہیر بلوچ کے خاندان کے افراد شامل تھے۔

ریلی میں شریک لاپتہ یاسر اور جنید حمید کی بہن یاسمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا، میرے بھائی تین ماہ سے ریاستی اداروں کے غیرقانونی حراست میں ہیں، اور ہمیں اب تک نہیں بتایا گیا کہ ان پر کیا الزام ہے یا انہوں نے کون سا جرم کیا ہے۔

یاسمین حمید کا کہنا تھا میرے بھائی محنت کش ہیں، ان کا کسی سیاسی یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں جبری طور پر لاپتہ کرنا آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

شبیر بلوچ کی بہن سیماء بلوچ نے اپنی تقریر میں کہا، میں 2016 سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہوں ہر روز پریس کلبوں کے باہر احتجاج کرنا ہمارے لیے معمول بن چکا ہے، لیکن عدلیہ، قانون، اور ریاستی ادارے اپنے وجود اور کردار کھو چکے ہیں۔

سیماء بلوچ نے کہا ہمارے سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم صرف اپنے پیاروں کی زندگی اور آزادی مانگ رہے ہیں، کیا یہ بھی جرم ہے؟”

راشد حسین کی والدہ نے اس موقع پر کہا چھ سال مکمل ہو گئے ہیں، لیکن عدالتوں، کمیشنز اور جے آئی ٹیز نے ہمیں کبھی انصاف فراہم نہیں کیا میں اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے اب بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوں۔ کیا ایک ماں کا اپنے بیٹے کے لیے انصاف مانگنا بھی جرم بن چکا ہے؟

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حب اور کراچی سے آئے ہوئے اراکین نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھا یہ ایک المیہ ہے کہ بلوچستان میں ہر دوسرے روز کسی نہ کسی خاندان کو جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حب چوکی میں احتجاج کرنے والے ان خاندانوں کی کہانیاں ہمارے لیے نئے نہیں ہیں یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے، لیکن ریاستی اداروں کی بے حسی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان لاپتہ افراد کو فوری طور پر منظرعام پر لایا جائے اور جبری گمشدگی کے اس غیر انسانی عمل کو روکا جائے۔

انہوں نے مزید کہا ریاستی ادارے اور عدلیہ کے ذمہ داران یاد رکھیں کہ بلوچ عوام اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر آج حب چوکی کے یہ خاندان یہاں کھڑے ہیں، تو کل بلوچستان کے ہر کونے سے لوگ کھڑے ہوں گے۔”

ریلی میں شریک دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، لیکن یوں جبری طور پر لاپتہ کر کے ہمیں اذیت میں مبتلا کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

مظاہرین نے حکومت سے جبری گمشدگی کے خاتمے اور لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ صرف شروعات ہے، اگر ان کے پیاروں کو بازیاب نہ کیا گیا تو احتجاج کا دائرہ پورے بلوچستان میں پھیلایا جائے گا۔