تربت حملہ: حکام نے 11 افراد کی ہلاکت، درجنوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کردی

501

بلوچستان کے علاقے تربت میں ہفتے کو ایک بس پر خودکش حملے میں نیم فوجی فرنٹیئر کور (ایف سی) کے 11 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

ناروے میں مقیم بلوچ صحافی کیا بلوچ نے کیچ کے ایک سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ قافلہ سات بسوں اور چھ اسکارٹ گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ نشانہ بننے والی بس میں 53 افراد سوار تھے جن میں زیادہ تر ایف سی کے اہلکار تھے اور ایف سی کی دو گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اہلکار نے 11 ہلاکتوں اور 48 شدید زخمیوں کی تصدیق کی، انہوں نے مزید کہا کہ بس کے تمام مسافر متاثر ہوئے۔ صوبائی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے عرب نیوز سے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ابتدائی طور پر بتایا کہ پانچ فوجی ہلاک ہو گئے ہیں اور تقریباً 40 دیگر زخمی ہوئے ہیں جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

دھماکے کے فوراً بعد فورسز اور پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچے اور علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کردی۔

تاہم حملے کی بیس گھنٹے گزرنے کے بعد عسکری حکام کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

علاقائی لوگوں اور عینی شاہدین کے مطابق کار سوار حملہ آور نے فورسز کی قافلے میں شامل ایک بس کو نشانہ بنایا جس پر فورسز اہلکار سوار تھے۔ لوگوں نے بتایا کہ دھماکے کی شدت بہت زور دار تھی جسکی آواز دور دور تک سنی گئی، جائے وقوعہ ابتک فورسز کی گھیراؤ میں ہے اور لوگوں کو مذکورہ مقام جانے سے روکا جارہا ہے ۔

تربت کے مقامی شخص نے بتایا کہ دھماکے کے بعد فورسز کی اندھادھند فائرنگ سے سڑک پر چلتے گاڑیوں میں سوار کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

ادھر تربت کے ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کو بتایا کہ ہفتے کو ہونے والے واقعے میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

آج اتوار کی صبح شہر میں فورسز کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ سٹیلائٹ ٹاؤن میں سخت پہرہ اور لوگوں کی تلاشی لی جارہی ہے ۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کی، متاثرین کے لیے دعا کی اور وعدہ کیا کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔

یاد رہے کہ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی ہے جو بلوچستان میں سب سے زیادہ سرگرم “آزادی کے حامی” مسلح گروپوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو اکثر ہائی پروفائل حملے کرتی ہے۔ اپنی سالانہ رپورٹ “دک – 2024” میں تنظیم نے دعویٰ کیا کہ اس نے گزشتہ سال 300 سے زائد آپریشن کیے، جن میں سینکڑوں پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔

مجید بریگیڈ، جسے بی ایل اے کی سب سے مہلک یونٹ کہا جاتا ہے، ہائی پروفائل خودکش حملوں میں مہارت رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس یونٹ نے 2024 میں چھ بڑی کارروائیاں کیں، جن میں پاکستانی فورسز کو نمایاں جانی نقصان پہنچا۔

ماہرین کے مطابق ہفتہ کا حملہ بی ایل اے کی مسلسل آپریشنل صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے خطے میں سیکورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ممکنہ خطرات کو بھی نمایاں کرتا ہے، خاص طور پر وہ جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سے منسلک ہیں۔

حکام نے خبردار کیا ہے کہ زخمیوں کی شدت کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ مزید معلومات متوقع ہے جب بی ایل اے اپنا مکمل بیان جاری کرے گا۔