بلوچ ویمن فورم کی مرکزی ترجمان نے اپنے پریس ریلیز میں کہا ہیکہ بلوچستان میں واقعات کی تازہ ترین لہر میں شدت آگئی ہے جس نے عوام کو ماتم کناں کردیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح پارلیمانی جماعتیں اپنی ذاتی و گروہی مفادات کی بناء پر واقعات کو الگ رنگ دیتے ہیں جبکہ عوام اجتماعی طور پر جبر سہہ رہے ہیں۔ ہم بارہا ان واقعات کی نشاندہی کرتے آرہے ہیں مگر اس بلوچ دشمن پالیسیاں اپنی انتہاؤں کو چھور رہی ہیں۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہیکہ 4 جنوری 2025 کو، ایک نوجوان جوکہ تربت سے ابوالحسن اور زمان بلوچ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف ہوشاپ کے دھرنے میں شریک تھا، ان پر ایک ٹرک چڑھا دیا گیا۔ انہیں فوری تربت اور پھر مزید علاج کے لیے کراچی منتقل کیاگیا مگر نوعمری میں ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔ ریاست کے علاوہ ہم پرامن اسمبلی کے آئینی طور پر (آرٹیکل 16) ہیبیس کارپس (آرٹیکل 199) پر ایسے مہلک عمل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرا سکتے ہیں؟
اس کے علاوہ تربت کے افضل منظور اور گوادر کے زکریا بلوچ کو بالترتیب حراست اور رہائی کے بعد ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ 8 دسمبر 2024 کو افضل بلوچ کو آپسر (تربت) سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جس کے بعد اس کے دیگر دو بھائیوں احسان منظور اور حامد منظور کو زبردستی اغوا کیا گیا۔ اگرچہ دیگر دو کو رہا کر دیا گیا، افضل بحفاظت بازیاب ہونے میں ناکام رہا، جس نے سکیورٹی فورسز کے چہرے پر ایک اور سوالیہ نشان لگا دیا۔ ایک خودساختہ بم دھماکے میں، اس کی لاش کو آپسر سے سیکورٹی فورسز کے ذریعہ اغوا کرنے کے عینی شاہدین کے باوجود نام نہاد دھماکے میں اس کے لاش کو دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس سے قبل کیچ کے علاقے بالگتر میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جہاں تین جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کے نشانات کے ساتھ ایک خود ساختہ کار میں رکھا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ایک اور سوال جواب طلب ہے۔
بی ڈبلیو ایف کے ترجمان کے مزید کہا ہیکہ زکریا بلوچ کو بھی ایسے ہی انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے سیکورٹی فورسز نے بندرگاہی شہر سے زبردستی لاپتہ کر دیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔ جب وہ جبری گمشدگی کے صدمے کے بعد اپنی معمول کی زندگی میں شامل ہوا تو اسے “نامعلوم مسلح افراد” کے نام سے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ وہی معلوم “نامعلوم” پہلے ہی کئی بلوچوں پر حملے کر چکے ہیں جو کبھی خاص طور پر کیچ اور گوادر کے اضلاع میں فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا شکار تھے۔
اگرچہ زکریا کا معاملہ نیا نہیں ہے، لیکن اس کے حملہ آور “نامعلوم” رہیں گے۔ اس کے علاوہ اس ماہ زہری کے واقعے کے بعد ضلع خضدار کے علاقے زہری سے 10 سے زائد بلوچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں فورسز نے شہریوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جس کے خلاف علاقہ مکینوں نے سوراب سے کراچی کوئٹہ روڈ بلاک کر دی۔ اگرچہ کچھ بازیاب ہو گئے تھے، لیکن کچھ اب بھی ریاست کے غیر قانونی عقوبت خانوں سے بحفاظت بازیاب ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہیکہ منتخب پارلیمنٹیرین باغیوں کے حملے کی مذمت کرنے کے لیے بے چین تھے، لیکن بندوق کی نوک پر غائب ہونے پر شہریوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام رہے، جو عوامی نمائندوں کے طور پر ان کی برائے نام حیثیت کی گواہی دیتا ہے۔
ترجمان نے کہا ہیکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا موقف ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف بلوچ نفرت کو ہوا دے رہا ہے۔ بلوچوں کے تحفظات سے نمٹنے میں ناکامی پر، ہم پاکستان، خطے اور دنیا کے انسانی حقوق کے چیمپیئنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریاست اور اس کے متعلقہ اداروں پر بلوچوں کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ ہم بلوچ عوام سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے ریاستی جبر کے خلاف منظم طریقے سے ساتھ دیں اور ہر فورم پر مزاحمت کریں۔ ہماری اجتماعی مزاحمت ہی ہمارا سب سے اہم اور بہترین علاج ہے۔