بلوچ نسل کشی کو آج بلوچستان سمیت بیرون ممالک یاد کیا جارہا ہے جہاں دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک بڑی نوعیت کا جلسہ عام جاری ہے جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر آگاہی مہم چلائی جاری ہے۔
25 جنوری کو بطور یوم یادگار بلوچ نسل کشی کیوں منایا جارہا ہے:
18 فروری 2011 توتک کے لوگوں کے لیے عام دن نہیں تھا۔ علی الصبح جب لوگ ابھی نیند سے بیدار ہو رہے تھے کہ گولیوں کی گڑگڑاہٹ سے توتک کے در و دیوار لزر اٹھے۔ جب لوگ نیند سے جاگے، اس وقت تک توتک گاؤں اور پہاڑی سلسلے فوج کے محاصرے میں تھے۔ فوجی گھر گھر تلاشی لے رہے تھے۔ لوگوں کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس کارروائی میں پاکستانی فوج نے دو بلوچ نوجوان یحییٰ قلندرانی اور نعیم بلوچ کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا اور ایک 80 سالہ بزرگ محمد رحیم سمیت سترہ افراد کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کر دیا، ان میں بوڑھے اور جوان شامل تھے ۔ اسی سالہ برزگ محمد رحیم سمیت دیگر اسیران ابھی تک فوج کے حراست میں ہیں جبکہ تین سالوں تک اس علاقے کو ایک ڈیتھ سکواڈ (حکومتی حمایت یافتہ مسلح گروہ) کا ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا مذکورہ ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی شفیق مینگل کررہے تھے۔
جبری لاپتہ افراد میں محمد رحیم بلوچ ولد جمعہ خان، آفتاب بلوچ ولد مشتاق احمد، نثار بلوچ ولد یعقوب خان، آصف بلوچ ولد جمعہ خان، ندیم بلوچ ولد عبدالحکیم، عتیق بلوچ ولد سردار علی محمد، خلیل بلوچ ولد سردار علی محمد، وسیم بلوچ ولد سردار علی محمد، ارشاد بلوچ ولد نواب خان، فدا بلوچ ولد عبداللہ، ظفر بلوچ ولد نور احمد، مصطفٰی بلوچ ولد عبدالغنی، امتیاز بلوچ ولد عبدالحکیم، ضیاء اللہ بلوچ ولد عبداللہ، عمران بلوچ ولد گامڑخان، ڈاکٹر محمد طاہر ولد محمد رحیم خان، مقصود بلوچ ولد شیر محمد (مسخ شدہ لاش برآمد)، عبدالوہاب ولد محمد عثمان شامل ہیں۔
توتک اجتماعی قبریں
توتک شہر کو اپنا ٹھکانہ بنانے کے بعد شفیق مینگل نے وہاں اپنے ٹارچر سیل قائم کیئے اور بلوچستان بھر سے معصوم لوگوں کو اغواء بعد وہاں پر زندانوں میں بند کرکے رکھا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں مال مویشی چرانے والے ہم سے بات کرتےتھے کہ انھیں رات بھر شفیق کے کیمپ سے چیخ و پکارکی آوازیں آتی ہیں، جیسے کسی کو ازیت دیا جارہا ہو۔ شفیق مینگل نے اپنے توتک کیمپ کے احاطے میں ہی گھڑے کھود رکھے تھے اور دوران ازیت اگر کسی کی موت ہوجاتی تو اسے وہی پر دفنایا جاتا تھا۔
ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دوہزار چودہ میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ شفیق مینگل کے کیمپ میں دریافت ہونے والی ان قبروں سے کل ایک سو انھتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔
بلوچ نسل کشی یادگاری دن
توتک میں اجتماعی قبریں دریافت ہونے کے دن کو بطور ‘بلوچ نسل کشی یادگاری دن’ کے منتخب کیا گیا ہے۔ اس دوران اعلان رواں مہینے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر نے کوئٹہ سے متصل دشت تیرا میل کے قبرستان کے مقام پر کیا۔
دشت قبرستان میں ان لوگوں کو دفنایا جاتا ہے جن کی شناخت ممکن نہیں ہوپاتی ہے جبکہ بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ قبرستان میں سینکڑوں قبریں جبری طور لاپتہ افراد کی ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ گزشتہ سال بلوچ لانگ مارچ کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 25 جنوری کو “بلوچ نسل کشی یادگاری دن” کے طور پر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کا مقصد ان تمام افراد کو یاد کرنا ہے جو بلوچ نسل کشی کی پالیسی کے تحت قتل کیے گئے، جسمانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوئے، اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، یہ دن دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے بھی ہے کہ جس طرح دیگر مظلوم اقوام کی نسل کشی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، اسی طرح بلوچ قوم پر ہونے والے جبر و ستم کو بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ بلوچ نسل کشی کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ بلوچ قوم کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
مزید کہا گیا کہ یہ دن 25 جنوری 2014 کے المناک واقعے کی یاد دلاتا ہے، جب بلوچستان کے علاقے توتک میں پاکستانی خفیہ اداروں کے ذیلی ملیشیا (ڈیتھ اسکواڈ) کے خالی کردہ “بلوچ کش کیمپ” سے جبری گمشدگی کا شکار بلوچ فرزندوں کی 100 سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ بلوچ قوم کی قومی یاد داشت میں ایک گہرا زخم بن چکا ہے، جو آج بھی ہر بلوچ خاندان، ہر ماں، بہن، بھائی، والد، اور معصوم بچوں کو اذیت میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ توتک کی اجتماعی قبریں اس المیے کی علامت ہیں، اور اس کے شکار خاندان آج تک اپنے پیاروں کی شناخت اور انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے “بلوچ نسل کشی یادگاری دن” کے لیے 25 جنوری کو منتخب کیا۔