بلوچ نسل کشی کی تاریخ میں سانحہ توتک ایک تلخ واقعہ ہے – وی بی ایم پی

250

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے افراد کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5710 دن مکمل ہوچکے ہیں۔

آج بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کی تاریخ کے تلخ ترین واقعات میں سے ایک سانحہ توتک کی برسی بھی ہے۔ آج سے 10 سال پہلے 24 اور 25 جنوری کو توتک کے مقام سے اجتماعی قبریں برامد ہوئی تھیں۔ اس مناسب سے وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سانحہ توتک آج بھی ایک حل طلب معاملہ ہے۔

وی بی ایم پی کے پریس کانفرنس اور توجہ دلانے کے بعد یہ معاملہ پاکستان کے سپریم کورٹ تک پہنچا لیکن طاقتور ادارے کے سامنے عدالت فیصلہ نہ کرسکی۔

انھوں نے کہا تین سو لاشیں ملی ہیں جن میں سے محض دو کی شناخت ہوچکی ہے۔ہم اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ مزید لاشوں کی شناخت کے لیے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ لاشوں کے ڈی این اے ٹسٹ کیے جائیں اور جو گیارہ قبریں ابھی تک نہیں کھودی گئی ہیں ان کو بھی کھودا جائے۔ اگر چار قبروں سے تین سو لاشیں برآمد ہوسکتی ہیں تو مزید سات قبروں میں بھی سینکڑوں لاشیں ہوسکتی ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیے اور علاقے تک لواحقین اور تنظیم کو رسائی ملنی چاہیے۔

ماما قدیر نے کہا اس سانحہ کے ملزمان کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے لیکن نظر آ رہا ہے کہ طاقتور ادارے اور اس ملک کے فوج کا آئینی سربراہ اور سب سے بڑے عہدے پر موجود شخصیت ملزمان کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

آج کے دن کی مناسبت سے وی بی ایم پی کے چیئرمین ںصر اللہ بلوچ نے میڈیا پر ایک خصوصی تحریر جاری کی اور یہاں وی بی ایم پی کے کیمپ کے پریس کانفرنس کیا ۔ انھوں سانحہ توتک اور عدالت میں اس پر چلائے گئے کیس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

نصر اللہ بلوچ نے توتک میں دریافت ہونے والیں اجتماعی قبروں کے بارے میں حکومتی دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا پہلے دن یعنی وہاں سے 24 جنوری 2014 کو 11 لاشیں ملیں 25 جنوی کو 2 لاشیں ملی اور 30 مارچ 2014 کو توتک سے مزید 4 لاشیں ملیں۔ یعنی حکومت کا کہنا ہے کہ توتک کی اجتماعی قبروں سے ٹوٹل 17 لاشیں ملی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے توتک کے ایریا میں اجتجاعی قبروں کی تعداد 11 تھا وہاں پر صرف 4 اجتماعی قبروں کی کھدائی کی گئی تھی اور توتک سے برآمد ہونے والی لاشوں کی اصل تعداد کمیشن اور حکومت کے تعداد سے کئی زیادہ ہے کیونکہ جس دن کمیشن اجتماعی قبروں کا معائنہ کرنے توتک گیا تھا تو اسی دن صحافی سحر بلوچ بھی وہاں جانے میں کامیاب ہوئی تھیں ، سحر بلوچ کے مطابق توتک میں اجتماعی قبروں کی تعداد 11 ہے اور کھدائی صرف 4 اجتماعی قبروں کی گئی ہے۔

انھوں نے عدالتی کارروائیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے سپریم کورٹ نے سانحہ توتک پر سوموٹو نوٹس لینے کی باوجود بھی اس انسانی المیے پر انصاف کے عمل کو مکمل نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے سانحہ توتک پر 3 سماعت کرنے کے بعد اس کیس کو مسنگ پرسنز کیس کے ساتھ یکجا کیا ۔پھر سپریم کورٹ نے 2018 میں مسنگ پرسنز کے کیسز لاپتہ افراد کمیشن کے حوالے کیا تو اس کے بعد سانحہ توتک کے کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوئی۔ حالانکہ ملکی قوانین کے مطابق سپریم کورٹ کی یہ آئینی زمہ داری بنتی تھی کہ وہ سانحہ توتک کیس کو منتقی انجام تک پہنچاتی۔

انھوں نے پاکستانی سپریم کورٹ سے سانحہ توتک کیس پر دوبارہ سماعت اور لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹسٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے ملکی آئین کے مطابق اب یہ موجودہ چیف جسٹس کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سانحہ توتک کیس پر دوبارہ سماعت شروع کرے اور توتک سے اجتماعی قبروں سے برآمد شدہ لاشوں کا ڈی این اے ٹسٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ صوبائی حکومت سے طلب کرے۔مقتولین اور ان کے قاتلوں کی شناخت کو یقینی بنائے، سانحہ توتک کے اصل حقائق کو سامنے لائے اور اس واقعے کے اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرے۔