بلوچ قوم کا مقدمہ: ظلم کے صحرا میں انصاف کی جستجو – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

436

بلوچ قوم کا مقدمہ: ظلم کے صحرا میں انصاف کی جستجو

تحریر: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نسل کشی، یہ محض ایک لفظ نہیں، بلکہ یہ انسانی تاریخ کا وہ اندوہناک باب ہے جو ہمارے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔ یہ ان مظلوموں کی داستان ہے جن کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ نسل کشی کا مطلب صرف جسمانی قتل نہیں، بلکہ یہ ایک پوری قوم کی شناخت کو ختم کرنے، ان کے وسائل کو چھیننے، اور ان کی ثقافت کو مٹانے کا منظم منصوبہ ہے۔

‎بلوچستان، جو سونے، تانبے، گیس، اور معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ہے، آج ایک ایسی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے جو طاقتور کے مفادات اور مظلوم کے وجود کے درمیان جاری ہے۔ بلوچ قوم، جو اس سرزمین کی وارث ہے، نہ صرف اپنے وسائل سے محروم ہے بلکہ اپنی آزادی، اپنی ثقافت، اور اپنی زبان کے حق سے بھی محروم کی جا رہی ہے۔

‎نسل کشی ایک تدریجی عمل ہے۔ یہ ایک ایسی خاموش سازش ہے جو آہستہ آہستہ کسی قوم کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ بلوچ قوم کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ ان کے گاؤں جلائے جا رہے ہیں، ان کے نوجوان اغوا کیے جا رہے ہیں، ان کی مائیں اپنے بچوں کے لیے تڑپ رہی ہیں، اور ان کے وسائل کو لوٹ کر انہیں مزید پسماندگی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس لیئے ہم ببانگ دہل پوری دنیا کو صاف الفاظ میں بتارہے ہیں کہ پاکستانی فوج بلوچ قوم کی نسل کشی کررہا۔

‎بلوچ نسل کشی کی سب سے بھیانک شکل جبری گمشدگیاں ہیں۔ ہزاروں بلوچ مرد، خواتین، اور بچے آج بھی لاپتہ ہیں۔ ان کے والدین کے آنسو اور ان کے بہن بھائیوں کی فریادیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ ریاستی ظلم کی حدیں پار ہو چکی ہیں۔ ان گمشدگیوں کا مقصد صرف خوف پیدا کرنا نہیں بلکہ بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنا ہے۔

‎لیکن یہ ظلم صرف جسمانی نہیں ہے۔ نسل کشی کی ایک اور مہلک شکل اقتصادی استحصال ہے۔ کسی قوم کے وسائل کو لوٹنا، ان کی زمین کو زہریلا بنانا، اور ان کے افراد کو غربت کے اندھیروں میں دھکیل دینا بھی نسل کشی ہی کی ایک شکل ہے۔ بلوچستان میں اقتصادی استحصال کی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن ریکوڈک اور سینڈک کے منصوبے اس کی بدترین مثالیں ہیں۔

‎ریکوڈک، جو دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر میں شامل ہے، بلوچ عوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ لیکن آج یہ منصوبہ پاکستانی ریاست اور غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان لوٹ مار کا مرکز بن چکا ہے۔ ان ذخائر سے نکلنے والی معدنیات سے پاکستان اور دیگر طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں، جبکہ بلوچ عوام صاف پانی، صحت کی سہولیات، اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔

‎اسی طرح سینڈک کا منصوبہ بھی اقتصادی استحصال کی ایک بدترین مثال ہے۔ یہاں سے روزانہ لاکھوں ڈالر کی معدنیات نکالی جاتی ہیں، لیکن ان کا فائدہ مقامی عوام کو نہیں بلکہ پاکستانی ریاست اور غیر ملکی طاقتوں کو پہنچ رہا ہے۔ اس منصوبے نے چاغی کے عوام کو غربت، بے روزگاری، اور صحت کے مسائل کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔

‎یہ دونوں منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اقتصادی استحصال نسل کشی کی ایک خاموش شکل ہے۔ بلوچ قوم کی زمینوں کو زہریلے کیمیکلز سے آلودہ کر دیا گیا ہے، ان کے بچے صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہیں، اور ان کی زندگیاں مزید پسماندگی میں دھکیل دی گئی ہیں۔

‎، فلسفہ بھی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انصاف کسی بھی قوم کی بقا کے لیے لازم ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ انصاف کا مطلب ہے ہر فرد اور قوم کو ان کا حق دینا۔ لیکن جب کسی قوم کے حقوق چھین لیے جائیں، ان کی زمینوں کو ان سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دیا جائے، اور ان کے وسائل کو لوٹ لیا جائے، تو یہ ناانصافی انسانیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔

‎بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے مظالم ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ کیا ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے، یا ہم ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں گے جن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ آج وقت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔

‎میرے بلوچ بہنوں اور بھائیوں، یہ وقت خاموشی کا نہیں بلکہ جدوجہد کا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب قومیں متحد ہوتی ہیں، تو وہ بڑے سے بڑے ظلم کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی ثقافت، اپنی زبان، اور اپنے وسائل کی حفاظت کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔

‎بلوچ نوجوانوں کو تعلیم، شعور، اور جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے وسائل پر اختیار کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی، چاہے وہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ہو یا مقامی سطح پر۔ ہمیں اپنی جدوجہد کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا تاکہ دنیا یہ جان سکے کہ بلوچ قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

‎یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں ہے۔ یہ وقت اپنی سرزمین، اپنی شناخت، اور اپنی بقا کے لیے میدان میں اترنے کا ہے۔ ظلم کی زنجیریں صرف اس وقت ٹوٹتی ہیں جب مظلوم اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ آج ہماری آوازیں دبائی جا رہی ہیں، ہماری زمینیں ہم سے چھینی جا رہی ہیں، اور ہماری ثقافت مٹائی جا رہی ہے۔ لیکن ہم خاموش رہ کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو مزید نہیں سہ سکتے۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے، اور اپنی عزت و وقار کی حفاظت کے لیے متحد ہو کر اس جدوجہد میں شامل ہونا ہوگا۔

‎میں آپ سب سے اپیل کرتی ہوں، چاہے آپ کہیں بھی ہیں، اپنے گھروں سے باہر نکلیے، اپنی آواز بلند کیجیے، اور اس تحریک میں شامل ہوں جو بلوچ قوم کی بقا کے لیے ہے۔ یہ لڑائی صرف چند افراد کی نہیں، یہ ہماری پوری قوم کی لڑائی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط کریں اور دنیا کو دکھائیں کہ بلوچ قوم نہ تو جھکنے والی ہے اور نہ ہی مٹنے والی۔ آئیں، ظلم کے خلاف کھڑے ہوں، اپنی طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کریں، اور ان مظلوموں کے لیے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں جن کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

‎بلوچ قوم کی تاریخ جدوجہد اور بہادری سے بھری ہوئی ہے۔ آج ہمیں اپنے اس ورثے کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہر بلوچ فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ آئیں، ہم سب مل کر اس تحریک کو کامیاب بنائیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ یہ وقت اتحاد، ہمت، اور جدوجہد کا ہے۔ آج ہم جو قدم اٹھائیں گے، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔