بلوچستان کے وسائل بلوچوں کے ہیں، بلوچوں کی مرضی کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں ہے۔ دالبندین قومی اجتماع

279

ہفتے کے روز بلوچ نسل کشی یادگاری دن کی مناسبت سے ضلع چاغی کے ہیڈ کواٹر دالبندین میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچوں کو یہ باور کروا رہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرزمین کے دفاع کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہر جابر کا مقابلہ کیا غلامی قبول نہیں کی، بلوچوں کو یہ چاہیے کہ وہ خاموشی کو ختم کریں،‏ پوری دنیا کو بتا دو کہ نسل کشی کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏بلوچستان کے وسائل بلوچوں کے ہیں، بلوچوں کی مرضی کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں ہے۔

اپنے تقریر میں انہوں نے بیرونی سرمایہ کاروں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیندک اور ریکوڈک کے سونے اور تانبے سے مالا مال علاقے ترقی اور خوشحالی کی علامت بننے کے بجائے لوٹ مار اور جبر کی یادگاروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آپ کی سرمایہ کاری اور معاشی تعاون ترقی کے آلات نہیں بلکہ مصائب اور گہرے ہونے کے ہتھیار ہیں۔ بلوچ عوام کے زخم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تیز کرنا، اور معاشی نسل کشی کو ممکن بنانا۔

‏ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ حقوق انسانی کی پامالی کے ساتھ بلوچستان میں لوگوں کا معاشی استحصال بھی جاری ہے، چاغی میں سونے، تانبے کے ذخائر کے باوجود لوگوں انتہائی پسماندگی سے دوچار ہیں، یہاں ایٹمی تجربات کی وجہ سے تابکاری کے اثرات سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔

جلسے میں 2022 میں مکی مسجد سیستان کے سامنے مظاہرین پر ایرانی حکام کی طرف سے سو سے زائد افراد کو براہ راست گولیاں مار کر قتل کرنے اور بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

مقررین نے بلوچستان اور سیستان سے متصل سرحد کو ایک اکائی قرار دیکر ایران میں بلوچ عوام پر مظالم پر تنقید کی۔

جلسے میں چاغی کے مقام پر ہونے والے ہونے والے اٹامک تجربات کے سبب ہونے والے اثرات کو بلوچ نسل کشی کا تسلسل قرار دیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے بلوچ وسائل کی لوٹ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ریاستی اداروں کو قرار دیا۔

شاہ جی بلوچ نے کہاکہ بلوچ یکجہتی ہماری طاقت ہے ، کسی فوج سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلوچ اپنی فوج خود ہے ، ہمیں متحد ہوکر جبر کے خلاف مزاحمت کرکے نسل کو بچانا ہے ۔

جلسے میں دالبندین کے مقامی لوگ جن میں خواتین اور بزرگ شامل تھے بڑی تعداد میں شریک رہیں جبکہ بلوچستان بھر سے قافلوں کی صورت میں لوگوں نے شرکت کی اور جلسہ کے بعد اپنے علاقوں میں روانہ ہوئے ، جلسہ میں شریک لوگوں نے دالبندین عوام کی مہمان نوازی کی تعریف کی ۔

جلسے میں بلوچستان بھر سے شہدا اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر شریک تھیں ۔ اس موقع پر انہوں اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا ۔

جبری لاپتہ آصف کی ہمشیرہ سائرہ بلوچ نے کہاکہ ‏ایک امید ہے جو کھبی ہارتی نہیں ہے وہ امید میرے بھائیوں کی بازیابی کی ہے بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن کے جلسے میں شرکت کرکے میں اپنے قوم اور دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم بدترین نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں ہر روز یہ سوچ کر مرتے کہ ہمارے پیارے جنہیں سالوں سے پاکستانی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ رکھا ہوا ہے وہ کس حال میں ہونگے کہاں ہونگے۔

دالبندین کے ایک مقامی صحافی نے جلسے کو بلوچستان کا بڑا اجتماع قرار دیتے ہوئے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ جلسے سے قبل سرکار نے مختلف طریقوں سے جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش کی، جس میں مواصلاتی سروس کی بندش کے ساتھ علاقائی پینل کے سربراہان کے ذریعے لوگوں جلسہ سے دور اور گھروں میں لوگوں جگہ نہ دینا کا بھی کہا گیا تھا۔ لیکن لوگوں نے کسی نتیجہ کے پروا کئیے بغیر اپنے گھروں کے دروازے کھولے ۔

انہوں نے بتایا اس روز صادق سنجرانی کو ایک پاکستان زندہ باد ریلی نکالنے کی عسکری حکم ملا تھا لیکن لوگوں کی عدم دستیابی سے یہ ممکن نہیں ہوسکا ۔

صحافی نے بتاتا کہ مقامی لیویز اہلکار نے انہیں بتاتا کہ مقامی سطح پر جلسہ کے لئے سرگرم لوگوں کا پروفالنگ کا کہا گیا ہے ، لیکن یہ حکومت کے لئے مشکل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ آدھا دالبندین اس جلسہ کے لئے متحرک رہا ہے ۔

مقامی صحافی نے بتایا کہ اس اجتماع کے دور درس نتائج برآمد ہونگے، جبکہ یہاں سرمایہ کاروں کے لئے بہت بڑا سوال پیدا ہوچکا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں اس حق کو تسلیم کرینگے مقامی لوگوں کے مرضی منشا کے برعکس سرمایہ کاری مفید ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔

واضح رہے کہ آج صبح تک ضلع میں مواصلاتی نظام معطل تھا، جس سے کاروباری حضرات کو مشکلات درپیش آرہے ہیں، کاروباری حضرات کے مطابق پانچ روز سے تمام مواصلاتی نظام معطل ہونے سے مالی طور پر نقصانات کا سامنا ہے ۔