بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ سال کے آخری مہینے سے جبری گمشدگیوں کے لہر میں اضافہ ہوا ہے۔ماما قدیر بلوچ

20

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور جن لوگوں کو ماورائے عدالت یا زیرحراست قتل کیا گیا ہے ان کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم ہے جبکہ ریاست پاکستان اور اس کی فوج اس جرم کا تسلسل کے ساتھ ارتکاب کر رہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرپرسن ماما قدیر بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ میں قائم احتجاجی کیمپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آج کیمپ کو 5715 دن مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر سوراب سے طالبات کے ایک وفد نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

انھوں نے کہاکہ جبری گمشدگیوں نے ہر سطح پر بلوچ سماج کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔روزانہ کی جبری گمشدگیوں سے ہر گاؤں ، قصبے اور شہروں میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ ہزراوں لوگ صرف اس لیے سڑکوں پر در بہ در ہیں کہ ان کے پیاروں کو غیر واضح الزامات کے تحت جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔ ریاست کی طرف سے جبری گمشدگیوں کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے کیونکہ ریاست سمجھتی تھی کہ وہ جبری گمشدگیوں کے ذریعے مخالفین کو خاموش کرئے گی لیکن دہائیاں گزرنے کے باوجود ریاست کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بھی ہتھیار بند جدوجہد ہی واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے وفود سے بات کرتے ہوئے مزید کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ سال کے آخری مہینے سے جبری گمشدگیوں کے لہر میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تک درجنوں افراد کو بلوچسان کے مختلف حصوں سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔