بلوچستان کتاب کاروان، ہمارے منتظمین کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہراسگی کا سامنا رہا ہے۔ بساک

43

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ ‏بلوچستان کتاب کاروان بولان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ نو روز سے جاری ہے۔ مچھ، سبی، ڈاڈر، حاجی شہر کے بعد آج باگ ناڑی میں کتب میلہ کا انعقاد کیا گیا ہے۔

‏بساک کے مطابق نوجوان و اساتذہ سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگ شرکت کرکے اپنی مطالعہ کے لئے جوش و خروش سے کتابیں خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں مہم کامیابی سے اختتام پزیر جن میں نوشکی، کوئٹہ، ملیر، تونسہ، بارکھان، کوہلو، نصیرآباد کے مختلف علاقوں سمیت دیگر شامل ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں کتب میلہ کا مہم جاری ہے جن میں خاران، مستونگ، ڈی جی خان، حب، کراچی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے بلوچستان کتاب کاروان کے نام پر اس سالِ کے شروعات میں اعلان کردہ مہم بلوچستان بھر میں جاری ہے جبکہ کچھ علاقوں میں پولیس و انتظامیہ کی جانب سے ہمارے منتظمین کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہراسگی کا سامنا رہا ہے مگر یہ کتب میلوں کا مہم تمام علم دشمن رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے جاری رہے گا۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ بلوچستان کتاب کاروان کے سال نو کے آغاز میں بلوچستان بھر میں کتاب میلوں کا اہتمام کیا گیا ہے جس کے تحت سیاست، سائنس، سماج، تاریخ ، ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں کے قیمتی کتابوں کو یکجا کرکے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کتاب اسٹالوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کے ساتھ جدید دنیا کے بنیادی سہولیات سے محروم بلوچستان اور اس کے باسیوں کو علم سے روشناس کرانے کی یہ کاوش ریاستی اداروں کو پسند نہیں آرہی اور اپنے تعلیم دشمن پالیسیوں کے تحت کتاب میلوں کو سبوتاژ کرنے کےلیے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے ذریعے منتظمین کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

ریاستی پولیس کی جانب سے نصیرآباد میں لگنے والے کتاب اسٹال کو زبردستی ختم کرنے کےلیے پولیس کی بھاری نفری لائی گئی اور کتاب اسٹال کو طاقت کی زور پر ختم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سبی میں لگنے والے کتاب اسٹال کو بھی پولیس کے ذریعے ختم کیا گیا اور بساک کے مرکزی سنگت سمیت طالبعلموں کو غیرقانونی طور پر گرفتار کرکے پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ خاران میں لگنے والے کتاب اسٹال پر بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فون کالز اور مختلف ذرائع سے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ کل بارکھان میں کتاب اسٹال پر پولیس نے دھاوا بولا اور زبردستی کتاب اسٹال کو بند کروایا۔

کتاب جو کہ معاشرے کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی جانب سفر کرانے والا بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب ہی معاشرے میں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا بہترین ہتھیار مانا جاتا ہے لیکن ریاستی اداروں کو کتاب سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟۔ یہ دراصل کتاب پر حملہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے شعور و دانش پر حملہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست دانستانہ بلوچ قوم کےلیے علم کے دروازے بند رکھنا چاہتا ہے۔ ایک طرف بلوچستان بھر میں پرائمری اسکولوں سے لے یونیورسٹیز تک غیر فعال ہیں ، لائیبریری ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، لاکھوں کی تعداد میں بلوچ بچے اسکول سے باہر ہیں وہیں ان اندھیروں میں ہم اپنی مدد آپ کے تحت علم کے دیے جلانے کےلیے کوششیں کررہے ہیں ان کو طاقت کی زور پر روکنا ہماری اجتماعی دانش پر حملہ ہے جس کے خلاف مزاحمت ناگزیر ہے۔