بلوچستان میں نامعلوم اجتماعی قبرستان اور اسلامی نقطۂ نظر
تحریر و تحقیق: مولانا راشد قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی جسدِ خاکی کی تکریم از روئے شریعت اور لاش کو ناقابل شناخت کرنے کے گناہ و جرم اور تکریمِ انسانیت پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
“وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا” (القرآن)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تکریمِ انسانیت کی حیثیت بیان فرمائی ہے کہ انسان قابل عزت و شرف ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ لہٰذا انسان کی شرافت کا تعلق اس کی زندگی اور موت دونوں سے ہے۔
ایسا قطعاً جائز نہیں بلکہ گناہ ہے کہ بعد از موت انسان کو گندگی میں پھینک دیا جائے اور ناقابلِ شناخت بنا کر ویرانے میں چھوڑ دیا جائے، یا ناقابلِ شناخت ہونے کی وجہ سے انسانی لاش کو نامعلوم دفن کر دیا جائے۔
اس عمل کی شریعتِ مطہرہ نے قطعی اجازت نہیں دی ہے۔ اسلام نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کی تکریم کا حکم دیا ہے اور بعد از موت ایذا رسانی سے سختی سے منع فرمایا ہے۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ لشکرِ اسلام کو جب بھی رسول خدا ﷺ جہاد پر روانہ فرماتے تو ضرور یہ حکم دیتے:
“ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدًا”
(دورانِ جنگ اور قتل کے بعد کسی مقتول کا چہرہ مسخ مت کرنا اور نہ کسی بچے کو قتل کرنا)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“ينهانا عن المثلة”
(نبی کریم ﷺ ہمیں کسی بھی میت کو مسخ کرنے سے منع فرماتے تھے)
حضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“نهى النبي ﷺ عن المثلة”
(ہمارے نبی ﷺ نے چہرہ مسخ کرنے سے منع فرمایا)
مثلہ کرنے کا مطلب ہے میت کے کسی عضو کو کاٹنا یا نکالنا، مثلاً آنکھیں، دل، گردے وغیرہ نکال دینا یا میت کو ناقابلِ شناخت بنانا۔
یہ مثلہ اور مسخ کہلاتا ہے اور شریعت میں اس عمل کی ممانعت کی وجوہات درج ذیل ہیں:
انسان کی شرافت و عزت زندگی اور موت دونوں حالتوں میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مسخ کرنے سے میت کے پسماندگان شناخت کے دوران شدید اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
میت کو مسخ کرنے سے اسے تکلیف پہنچتی ہے، جو شریعت میں گناہ اور جرم ہے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے:
“كسر عظم الميت ككسره حيًا”
(میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ انسان کی ہڈی توڑنا)
اسی طرح روایت ہے:
“أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته”
(مردے کو تکلیف دینا ویسا ہی ہے جیسا کہ زندگی میں کسی کو تکلیف دینا)
امام طحاوی فرماتے ہیں کہ مردے کی ہڈی کا احترام ایسا ہی ہے جیسے زندہ انسان کی ہڈی کا احترام۔
لہٰذا قتل کے بعد میت کو ویرانے میں پھینکنا، شناخت مٹانا یا مسخ کرنا حرام ہے۔
چاہے یہ توتک کی اجتماعی قبروں میں بغیر شناخت کے دفن شدہ لاشوں کا معاملہ ہو، نشتر اسپتال ملتان میں لاشوں کی بے حرمتی ہو یا دشت کے مقام پر اجتماعی قبرستان، یہ سب ظلم کے مظاہر ہیں۔ یہ ان ہزاروں خاندانوں کی امیدیں تھیں جو اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے ترس رہے ہیں۔
یہ دنیا کا وہ ظلم ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور ایسے مظالم نفرت کو جنم دیتے ہیں۔ مزاحمت نسلوں کے خون میں پروان چڑھتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔