بلوچستان میں لوگوں کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

105

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5716 ویں روز جاری رہا۔

تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ وی بی ایم پی تمام جبری لاپتہ افراد کی بازیابی ، زیرحراست اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لواحقین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے۔

جمعہ کے روز بی این پی کے مرکز کونسلر غلام رسول ایڈوکیٹ اور عمران میروانی نے احتجاجی کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 1948 سے ریاست پاکستان کے ادارے بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ بلوچ قوم کے تمام حقوق سے انکار کرکے بلوچستان کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ریاست چاہتی ہے کہ بلوچ اپنی سرزمین کے اختیار اور قومی تشخص سے دستبردار ہوجائے جو ممکن نہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچ آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جدوجہد کی پاداش میں ہزاروں بلوچوں کو جبری گمشدہ اور ہزاروں کو قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔کسی قوم کو طاقت کے زور پر دبایا نہیں جاسکتا ریاست کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی۔پاکستان نے جبر کا ہرطریقہ استعمال کیا ہے جس سے بلوچستان میں ریاست کی ساکھ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا جبری گمشدگی ، گھروں پر چھاپے کسی ایسے عناصر کی سرکوبی کے لیے نہیں جسے ریاست مخالف قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ تمام ہتھکنڈے اجتماعی سزا کی شکل ہیں۔ ان افراد کو جو براہ راست ریاست کے ساتھ کسی جنگ میں ملوث نہیں ۔ ہتھیار بند یا کسی ہتھیاربند تنظیم کا حصہ نہیں ان کو محض اس بنیاد پر نشانہ بنانا کہ ان کا کوئی عزیز مبینہ طور پر کسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہے، ریاست پاکستان کے اپنے آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے کہا ہم ریاستی تشدد کی مذمت اور اس کی فوری روک تھام کا مطالبہ کرتے ہیں۔