ایک کھلا خط: ماشکیل کے واٹساپ گروپ ایڈمن صاحبان کے نام ۔ مظلوم بلوچ

206

ایک کھلا خط: ماشکیل کے واٹساپ گروپ ایڈمن صاحبان کے نام

تحریر: مظلوم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سب سے پہلے میں معزرت چاہتا ہوں کہ میں ایک بلوچ ہوں مگر اردو میں لکھ رہا ہوں مجھے یقیناً اس پر شرم بھی محسوس ہورہا ہے کہ لکھنے والا بھی بلوچ ہے اور پڑھنے والا یعنی جس کیلئے لکھا جارہا ہے وہ بھی بلوچ ہے مگر کیا کریں ہم پر اردو زبان مسلط کی گئی ہے کہ اب ہمارے لوگ اپنی مادری زبان سے بھی نا آشنا ہیں، نہ اپنی زبان میں لکھنا جانتے ہیں نہ ہی سیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی ہی زبان سے یہ دوری یوں قدرتی عمل نہیں بلکہ اس کے برعکس اپنی زبان سے محبت ہی قدرتی عمل ہے مگر ایک طاقت نے ہم پر اردو زبان یوں مسلط کی ہے کہ اب ہم دو بھائی بھی جب ایک دوسرے کو میسج کرتے ہیں تو اردو میں ہی لکھتے ہیں، انہی واٹساپ گروپوں میں بھی زبان اردو ہی استعمال ہوتی ہیں حالانکہ گروپ میں سب بلوچ ہیں۔ زبان کسی بھی قوم کی شناخت کا مضبوط ترین جُز ہے اور اسی طرح بلوچی زبان بھی ہماری شناخت کا اہم جُز ہے جس میں ہماری احساسات، اخلاق و اقدار، قصہ و کہانی، ادب و داستان اور سب سے بڑھ کر ایک ہونے کا جزبہ پیوست ہیں اسی لئے اپنی زبان کو چھوڑ کر کسی اور زبان کو استعمال کرکے صرف رابطہ کاری یا لفظوں کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ ہم اپنی احساسات، جزبات اور شناخت پر کسی غیر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چلے خیر اپنی موضوع کی طرف آتے ہیں۔

میں نہ پیشہ ورانہ لکھاری ہوں نہ لکھنے کا شوق ہے مگر ایک درد، تکلیف اور احساس نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا کہ میں ان ایڈمن صاحبان کے نام چند الفاظ لکھوں۔ یہ واضح کرتا چلوں کہ میں ان ایڈمن صاحبان سے مخاطب ہوں جو ماشکیل میں سوشل میڈیا کے ایک مضبوط جُز واٹساپ گروپ چلا رہے ہیں جن کے گروپ میں بلوچ و بلوچستان خاص کر بلوچ معاشرہ کے حالاتِ حاضرہ پر کوئی پوسٹ شیئر کرنے پر پابندی ہے، اور وہ اس گروپ یا پلیٹ فارم کو اپنی قوم و معاشرہ کے حالات و ضروریات کے بجائے ان آقاوں کے تابعداری کے مطابق چلا رہے ہیں جن کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگیں ہیں۔ شاید کچھ ایسے بھی ہوں کہ وہ اس خوف و تابعداری کے ماحول میں بھی بلوچ بن کر اپنی حالات و واقعات کے مطابق اپنی زمہ داری نبھا رہے ہیں ان کو سرخ سلام اور وہ بے شک داد کے مستحق ہیں۔

جناب ایڈمن صاحبان آپ نے اپنی معاشرہ، بلوچ و بلوچستان سے اپنا رشتہ کاٹ کر اپنی ضمیر بہت سستے داموں فروخت کی ہے، آپ آقا کی غلامی میں فرمانبرداری کرتے ہوئے اس حد تک گرچکے ہیں کہ یقین جانیئے کہ مجھے شرم محسوس ہورہا ہے۔ انسان وحشت و جنگلی زندگی کے دور میں بھی کم از کم اپنے کچھ لوگوں کیساتھ جڑا رہتا تھا مگر آپ آج اس انسانی تہذیب کے عروج کے دور میں بھی اپنے لوگوں سے کٹ چکے ہو، آپ اپنے گفتار و رفتار میں بھی اپنے لوگوں (مظلوموں) سے دور اور آقا سے قریب تر ہیں۔ انتہائی معذرت کیساتھ آپ ایک ادھورا انسان ہے، آپ کی انسانیت کی ابھی تک تکمیل نہیں ہوئی ہے، کیونکہ انسان صرف اپنے ذات کیلئے اشرف المخلوقات نہیں بنتا بلکہ وہ معاشرے کی اجتماعیت کا حصہ بن کر، اجتماعی زمہ واری کیساتھ انسانیت کے رتبے پر پہنچتا ہے۔

حالتِ جنگ میں صرف دو ہی طبقے ہوتے ہیں ظالم و مظلوم اور لوگ بھی انہی دو طبقوں میں منقسم ہوتے ہیں یعنی کچھ لوگ مظلوم کیساتھ اور کچھ ظالم کیساتھ، کچھ لوگ اپنی بے حسی، مردہ ضمیری یا خوف کو جواز پیش کرنے کیلئے کوئی درمیانی طبقہ کا نام استعمال کرتے ہیں جو درحقیت جنگ میں وجود نہیں رکتھا بلکہ جنگ میں ایک لکیر کے صرف دو اطراف ہیں اور لوگ یا اِس طرف یا اُس طرف ہوتے ہیں۔ آپ کی مردہ ضمیر کو زرا جگانے کیلئے آپ کے ہی علاقے کا مثال لیتے ہیں جیسے ایک بلوچ بہین کو اٹھایا جاتا ہے، ریپ کیا جاتا ہے، بعد میں چہرے پر تیزاب پینھک کر شناخت مسخ کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ کرنے والا ظالم اور اس کی ٹولی ہے مگر آپ اس پر خاموش تماشائی بنتے ہیں اور اپنی اس خاموشی کو درمیانی طبقہ یعنی غیر جانبدار (نیوٹرل) کہتے ہیں جو کم از کم اس حالت میں وجود نہیں رکھتا اور کسی بھی روایات و اقدار کیمطابق جانچا جائے آپ ظالم طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔

آپ کی آسانی کیلئے کچھ اور مثالیں بھی دیتے ہیں جیسے آپ کے گروپ میں اس خبر کی گنجائش ہے کہ لاہور میں مریم نواز نے ہوٹلوں میں گدھے کے گوشت بیچنے کے خلاف نوٹس لی لیکن جب کراچی میں سمی دین کی چادر کھینچی گئی اس کیلئے آپ کے گروپ میں گنجائش نہیں، سرفراز بگٹی جب دالبندین پہنچتے ہیں آپ پل پل اپڈیٹ دیتے ہیں مگر جب قوم کی بہادر بیٹی ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ایک تاریخی ہجوم کیساتھ دالبندین تشریف لاتے ہیں اس آپ صرف زندہ لاش بن کر تماشاہی بنتے ہیں۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا گرجتا ہوا نعرہ “ماہرنگ نا بشخندہ پائک، سُہب نا ء سُہب نا ء” سے پورا رخشان گونج اٹھا مگر آپ نے بہرے کا روپ دھارا۔ بشری بی بی اور عمران خان کے نکاح کا معاملہ آپ کا اور آپ کے گروپ کا مسلئہ بن سکتا ہے مگر افسوس کیساتھ بلوچ ماؤں و بہنوں کے چیخ و پکار آپ کا مسلئہ نہیں۔

دوغلا پن کی انتہا دیکھیں جب کوئی اپنی فطری موت مرجاتا ہے اس کی موت کی خبر انا للہ وانا الیہ راجعون فوراً پہنچ جاتا ہے مگر جب کوئی غیر فطری موت مارا جاتا ہے اس کے وجوہات و اسباب پر بات کرنا دور کی بات آپ انا للہ وانا الیہ راجعون تک بھی نہیں کہتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے آقا کی غلامی میں فرمانبرداری کی تمام حدود پار کی ہے، اس میں سبب مردہ ضمیری و بے حسی ہے، ضمیر فروشی ہے، خوف کا سایہ ہے، چند پیسوں کی ہوس ہے، چند ہزار کی تنخواہ ہے یا کچھ اور ہوسکتا ہے مگر جو بھی ہو اس تحریر کو پڑھ کر آپ اپنے دائرے کا خود تعین کریں کہ آپ کس دائرے میں آتے ہیں۔

نوٹ:۔ ماشکیل میں کچھ عرصہ قبل آقا نے اپنے فرمانبردار غلاموں (واٹساپ ایڈمن صاحبان) کو بلایا تھا اور انہیں واٹساپ گروپ کو چلانے کیلئے کچھ قواعد و ضوابط دیا تھا اور آج تک یہ فرمانبردار انہیں آقا کے حکم کے تابعداری میں اپنی معاشرہ، قوم، حالات اور اپنے ہی لوگوں سے کٹ چکے ہیں اور ان کی سوشل میڈیا گروپ/اکاونٹ آقا اور آقا کے نمائندوں کی عین نوازش کیمابق چلتا ہے جبکہ بلوچ و بلوچستان کیلئے ان کے ہاں جگہ نہیں جبکہ بیشتر گروپ پر مارشلاء لگا ہوا ہے اور صرف ایڈمن ہی پوسٹ کرسکتے ہیں۔

کؤرءُ گیاب ءُ کیلگ کوہ ءُ دمن بهابنت،

جاهے تمن بها بنت جاهے وطن بهابنت،

سوداگراں جهان ء ہر چیزء نیاد بستگ،

براتانی غیرت ءُ ننگ مردانی جن بها بنت،

تو پہ گلابی پُهلے ارساں مہ ریچ بُلبل،

بنی آدمانی شهر ءَ پُرّیں چمن بها بنت،

صد رنج کہ مروچاں براتانی دیم پہ دیم ءَ،

گراں مہذبیں گهار ءٍ لُنٹانی پن بها بنت،

چہ دؤر ءٍ گردش ءَ اے دنیا ءٍ رسم ٹهتگ،

جون ءَ دینت قبرءَ نوکیں کفن بها بنت.

قا‌ضی مبارک


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔