اک ملاقات کی روداد ۔ دینار بلوچ

340

اک ملاقات کی روداد
تحریر: دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سگریٹ کا کش لگا کر ایک ہاتھ سے مِلک پیک کی ڈبی نکال کر چائے دانی میں انڈیلنے لگا، پھر غور سے میرے چہرے پر دیکھ کر کہنے لگا:
“دیدگ، تمہیں یہاں میرے ساتھ ڈر نہیں لگتا؟”
“وہ کون بدبخت ہوگا جسے اپنے محافظوں کے ساتھ بھی ڈر لگے؟”
میرا جواب سن کر وہ خاموشی سے چائے بنانے میں مصروف ہو گیا۔ پھر گویا وہ بولنے لگا:
“سنگت، دو سال سے ہم ملے نہیں، کیا کبھی مجھے آپ نے یاد کیا؟”
“سنگت، بچھڑنا کسے کہتے ہیں؟ شاید آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ لہٰذا ہم وقتی طور پر کچھ دنوں کے لیے، کچھ مہینوں کے لیے یا کچھ سالوں کے لیے ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ضرور ہوتے ہیں، مگر ہمارے خیالات ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے ہیں اور مناسب وقت ملتے ہی ہم ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرتے ہیں۔”
“سنگت، آپ نے یہ راستہ کیوں چنا ہے؟” میرے منہ سے یہ سن کر وہ میرے طرف دیکھ کر اپنے چہرے پہ پھیکی مسکراہٹ سجا کے کہنے لگا:
“دیدگ، ایسا نہیں ہے کہ یہ سوال میں نے خود سے کبھی نہ کیا ہو، لیکن آج کل میرے ہمراز یہ سنگلاخ پہاڑ ہیں، جنہیں میں اپنا سب کچھ سنا تو سکتا ہوں لیکن شاید اب تک میں اس قابل نہیں ہوا ہوں کہ ان کی بھی زبان سمجھ سکوں۔”
“دیدگ، ہم چار بھائی ہیں، باقی تین دنیاداری میں لگے ہوئے ہیں، ایک میں ہی ہوں جو اس پُرخطر راستے پر چلنے لگا ہوں۔ پتا ہے کیوں؟ یہ تو میں خود بھی سمجھ نہیں سکا کہ میں بہادر ہوں، باقی میرے تین بھائی بزدل ہیں، یا وہ تینوں سمجھ دار ہیں اور میں ایک ناسمجھ ہوں جو اس راستے پر اکیلا چلنے لگا ہوں۔ بہرحال، میں مطمئن ہوں اور میرے تینوں بھائی بھی مجھ سے مطمئن ہیں۔ وہ بھی مجھے میری ہر مشن کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں، وہ بھی میرے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں، کبھی وہ مجھے منع نہیں کرتے، کبھی بھی ضد نہیں کرتے کہ اس راستے سے دستبردار ہو جاؤ۔”

پھر زگرین مسلسل بولتا جارہا تھا، وہی اس کا فلسفیانہ لہجہ، وہی مدلل تاریخی باتیں، وہی علم و دانائی جیسے اب بھی اس کا مسکن سنگلاخ، کالے بیابان پہاڑ نہیں بلکہ علم و دانش بانٹنے والے ادارے میں رہتا ہو۔ میں بہت دیر سے اُس کی باتیں سنتا رہا اور پھر اس کے حلیے پہ غور کرتا رہا۔
اب بھی اس کے علم و دانائی میں کمی آنے کے بجائے مزید تیزی آچکا تھا لیکن اس کا حلیہ پہلے سے بالکل الگ تھا۔
روز شیمپو سے بال دھونے والا اب شاید تین دن بعد وہ بھی صابن سے بال دھوتا ہوگا، گھنٹے گھنٹے پہ کنگھی ہونے والے بال شاید اب صرف صبح نیند سے بیداری کے وقت کنگھی ہوتے ہوں گے۔ صبح دیر تک سونے والے لڑکے کو اب تو شاید سورج نکلتے ہی بیدار و تیار پاتا ہوگا۔ ہر روز صاف کپڑے پہنے والا اب شاید ہفتوں تک ایک ہی پیوند لگے جوڑے سے گزارا کرتا ہوگا۔ کیا ستم ظریفی ہے!
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک زگرین کی آواز بلند ہونے لگی:
“دیدگ، تم سن رہے ہو کہ نہیں؟ میں کیا بول رہا ہوں؟”
“جی، میں سن رہا ہوں اور سمجھ بھی رہا ہوں۔”

“سنگت، بلوچ قیادت کی نااہلی کی وجہ سے اپنے قومی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکے، یعنی یہ مقولہ سچ ہے کہ آزادی لینے سے زیادہ حاصل کردہ آزادی کو برقرار رکھنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم یہ فریضہ انجام نہ دے سکے۔ ایک طویل و سیاہ رات نے بلوچ قوم پر ڈیرہ ڈالا۔ لیکن سنگت، ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور نکلتی ہے، لیکن غلامی کے تاریک دور کے بعد ایک تحریک جنم لیتی ہے، اور پھر آزادی تک چلتی رہتی ہے۔”

“دنیا کی بڑی تہذیبوں کی اوسط عمر دو سو سال رہی ہے۔ ایسی ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے: پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک، پھر عزم اور حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک، پھر آزادی سے خوش حالی اور پھر خوش حالی سے خودغرضی تک۔ خودغرضی لا تعلقی کا سبب بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے۔ بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔”
“سنگت، یہ بیان Alexander Fraser Tytler سے منصوب کرتے ہیں، بہرحال سوچنا یہ چاہیئے کہ ان جملوں کے مطابق بلوچ قوم اب کس مقام پر کھڑی ہے؟ غلامی سے مذہبی عقائد تک، عزم اور حوصلے، آزادی سے خودغرضی تک اور پھر غلامی تک یا از سرے نو؟”

“سنو زگرین، میں بے مقصد زندگی گزارنے سے بیزار ہو چکا ہوں۔ ہر گزرا دن میرے ضمیر پر بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ ایک بلوچ کی زندگی یوں بے مقصد گزرتی رہے۔ سنگت، ایک بلوچ کا زندگی کو مقصد کے بغیر گزارنا میرے نزدیک زندگی کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔”
چند لمحے ایک بڑے پتھر کو گھورنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا:
“انسان عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، اگر زندگی کا مقصد واضح ہو تو زندگی آسان اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔ یہ تجربہ امریکا کے ایک اولڈ پیپلز ہوم میں ہوا اور اس نے دنیا کی نفسیاتی شکل تبدیل کر دی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس تجربے اور اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں، چنانچہ ہماری زندگی میں امن، کامیابی اور خوشی نہیں۔ ہم آج اگر بے مقصدیت کے اس المیے کو سمجھ جائیں تو ہماری زندگی کی شکل تبدیل ہو جائے۔”

“سنگت، ہم ایک مقدس راہ کے راہی ہیں۔ یہاں آنے سے پہلے ایک جہدکار اپنے تمام تر خواہشات کو قربان کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اپنے گھر بار، بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی سب کو چھوڑ کر خود کو ایک چیز کے لیے وقف کر دیتا ہے، وہ چیز ہے وطن اور قوم کا دفاع اور اس مقصد کے لیے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ دن میں کئی بار موت کو اپنے سامنے رقص کرتے پاتا ہے لیکن کبھی بھی خوف زدہ نہیں ہوتا۔ پتا ہے کیوں؟ کیونکہ وہ ایک زی شعور سرمچار بنتا ہے اور اس کے ہاں بلوچ قوم و بلوچستان کے دفاع کے علاوہ کوئی مقدس شے نہیں ہوتی۔”
“سنگت، ایک جہدکار کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا جذبہ ہوتا ہے اور اسے شعور کے سانچے میں ڈھال کر طاقتور دشمن کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی جاتی ہے۔”
“سنگت، اگر کسی قوم کی سیاسی و اقتصادی قوت ختم ہو جاتی ہے لیکن ان کی فکری صلاحیت زندہ ہو تو قوم واپس ایک باوقار قوم بن سکتی ہے۔”

زگرین مسلسل بولتا رہا اور میں اس کے سامنے خاموش بیٹھے اس کی باتوں کو غور سے سنتا رہا۔ نہ جانے وہ اس تین سال کو کیسے گزارا ہوگا۔ کتنی تکالیف کاٹے ہوں گے۔ کتنی پریشانیوں کا سامنا کیا ہوگا۔ سردی، گرمی، دھوپ، بارش، قندھاری یخ بستہ ہواؤں کا یہ نازک جسم کیسے مقابلہ کیا ہوگا؟
مجھے خیالوں میں گم سم پاکر وہ دھیرے لہجے میں بولا:
“دیدگ، پھر حلق سے نیچے تھوک اتار کر کہنے لگا: پتا ہے ہمت اور حوصلہ یہ دونوں کیا چیزیں ہیں؟ اور یہ جب ایک عام انسان میں پیدا ہوتے ہیں تو پھر اُس انسان کو فولاد بناتے ہیں، خوف کو اس کے دل سے نکالتے ہیں، ہر وہ چیز جو بظاہر ایک شخص کے لیے ناممکن ہوتی ہے، وہ شخص ایک دن اُس مشکل کام کو کرنے کا بھی اہل ہوتا ہے۔ یہ دونوں ایک انسان میں پیدا کب ہوتے ہیں اور پیدا ہوتے کیوں ہیں؟ جب ایک انسان شعور کی اُس بلندی تک پہنچتا ہے جہاں اسے ایک اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اس کام کو انجام دینے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے، تو اس وقت اس شخص کے دل میں ایک جذبہ سا جاگ اُٹھتا ہے اور اس جذبے کے جو چنگاری ہوتے ہیں، وہ انسان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کرتے ہیں جو مسلسل انگارے کی طرح جلتے رہتے ہیں۔ اور جب تک یہ چنگاریاں جلتی رہیں گی اُس وقت تک اس شخص کو نہ کوئی شکست دے سکے گا اور نہ ہی وہ شخص کسی دباؤ یا لالچ کا شکار ہو سکے گا۔ ایک دن اُس شخص کے دل میں دشمن کے لیے نفرت کا ایسا الاؤ روشن ہوگا جو ہر چیز کو بھسم کردینے کی طاقت رکھے گا۔”

زگرین مسلسل سگریٹ پیتا رہا، ایک کو ختم کرکے دوسرا سلگاتا، اور آہستہ آہستہ چائے پیتا رہتا۔ وہ لگاتار بولتا جا رہا تھا:
“دیدگ، میں چاہتا ہوں کہ ہر بلوچ میں ایک جذبہ پیدا ہو، ایک ایسا جذبہ جو اسے غلامی کا احساس دِلائے، اسے غلامی سے نفرت کی ترغیب دے، اور ہمیشہ بیدار رکھے۔ جانتے ہو، آج کل ہمارے نوجوان کن برائیوں کے شکار ہیں؟ ان کی سوچ محدود ہو کر رہ گئی ہے—گاڑی، موٹر سائیکل، آئی فون، پکنک، فضول کے سیر سپاٹے۔ دیکھو، میں قطعاً ان کے خلاف نہیں ہوں، اور نہ ہی ایسا کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل ہے۔ لیکن ٹک ٹاک کی دنیا تک محدود نوجوانوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، اور نوجوان بھی ایک غلام قوم کے۔ دشمن کی کوشش بھی تو یہی ہے کہ بلوچ کی نئی نسل کو کس طرح اپنے کنٹرول میں رکھا جائے، کس طرح ان کی سوچ کو محدود کیا جائے، اور کس طرح انہیں یہ سوچنے کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جن کے باپ دادا کی بہادری کی تاریخ دنیا کی تاریخ میں مشہور ہے، اور ان کے اولاد اس سوچ سے، اس کاز سے دستبردار ہو رہے ہیں۔”

زگرین بولتے بولتے اچانک اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا:
“دیدگ، مجھے ابھی جانا ہوگا، میرے دوست مطلوبہ جگہ پہنچ کر میرے انتظار میں ہوں گے۔ وقت کیسے گزرا، کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس وقت کے لیے خدا حافظ۔”
“شیر دل غیب ٹھیک ہی تو کہتا ہے کہ وقت کے فولادی ٹائر ہوتے ہیں جو کبھی پنکچر نہیں ہوتے…”

اور میں اُس وقت تک اُسے دیکھتا رہا، پھر وہ اچانک پہاڑوں میں غائب ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔