اُستاد اسلم بلوچ: زخمی دلوں کی پُرزور آواز
تحریر: کاکا انور
دی بلوچستان پوسٹ
اُستاد کی عظمت اور شان کو میں شاید کبھی بھی اپنے لفظوں میں بیان نہیں کر پاؤں گا، لیکن وہ ایک ایسی ہستی تھے جن کی وجہ سے نا امیدی کے عالم میں پلنے والے بلوچ قبضہ گیر پنجابیوں کی اذیت کی آگ کے چنگاریوں سی نکل کر اس کاروانِ اسلم میں شامل ہوئے۔ وہ جس خلوص دل و نیت سے اس جنگ میں شامل ہوئے تو خدا نے اُنہیں تعمیری صلاحیتوں اور اثرانگیزی کی خوبیوں سے نوازا۔ اسی خلوص اور صدق کی اعلیٰ مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ اُنہوں نے قومی تحریک کی خاطر سب کچھ قربان کردیا۔ انہی قربانیوں کی وجہ سے وہ موجودہ نسل سمیت آنے والے انسال کے رگ رگ میں خون کی مانند شامل ہیں اور بڑوں سے لیکر معصوم بچوں تک سب کیلئے ایک کلمہ بن چکے ہیں۔ وہ معصوم بچہ جو اپنا نام تک بھی نہیں بول پاتا، وہ بھی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے۔
جس مجید برگیڈ کی سنگِ بنیاد انہوں نے رکھی، وہ اپنے اثر و تاثیر کی وجہ سے آج بلوچ قوم کے رگ رگ میں خون کی مانند دوڑ رہی ہے۔ ہر بلوچ بخوبی یہ کہہ سکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر صبح کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ اسی لیے موت کو خوش آمدید کرنے والے جانثار مجید برگیڈ میں شامل ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ دمِ سُور کی مانند ہے جو قیامت کے وقت لگتا ہے۔ دشمن کے رگوں میں اس کا خوف داخل ہو چکا ہے۔
استاد اسلم بلوچ آزادی کی پکار بنے اور بلوچستان کے معصوم بلوچوں کی آواز کا پیغمبر بنے۔ اُنہوں نے خالی ہاتھ ٹکنالوجی کے اس دور میں ایک ایسی پُر تاثیر اور بااثر مشن سرانجام دی کہ وہ لاتعداد بلوچوں کے دلوں چھو گئی۔ قومی پرچم کو دستار بنا کر اُنہوں نے اپنے لختِ جگر کو آخری مشن پر روانہ کیا جو قدرت کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے؟ چار جماعت نکل کے ساتھ پاس کرنے والا میرے جیسا ادنٰی شخص یہ ثابت ہی نہیں کر سکتا کہ اُستاد کا کارنامہ کتنا عظیم ہے۔ یہ سب شاید انبیاؤں کے زمانے میں ہوتا گا کہ ایک شخص اس قدر عظمت و شان کا مقام حاصل کرے۔ وہ ایک ایسے پُر تاثیر و بااثر شخص ہیں کہ اُن کے متعلق سوچتے وقت زُبان خاموش اور دل محبت سے بھر جاتا ہے۔ آج ایک چھوٹی بچی بھی خود اُس کے مشن کا سپاہی کہتی ہے اور دیگر فدائیوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ یہی وہ عظمت کی اعلیٰ مثال ہے کہ اُستاد ایک پُرزور آواز کی مانند بڑوں سے لیکر چھوٹے بچوں تک اپنے مشن کی اہمیت اور زمین کی محبت کو عملی طور پر پہنچا چکے ہیں۔
اُستاد ایسے پُرزور آواز ہیں جو آنے والی صدیوں میں ہر گُزرتے نسل کے روحوں میں ایک تاثیر کی مانند پیوست ہوگی۔ اُن کی کاوشوں سے بنی والی یونٹ مجید برگیڈ ایک ایسے مشن کا نام ہے جس میں ہر بلوچ نسل در نسل، خواہ وہ موجودہ دور کے ہوں، یا آنے والے زمانے کے ہوں، دشمن کی تباہی کا وہ تلوار یا خنجر بنیں جس میں ازیت زدہ ماؤں کی آسمان کو لرزانے والی فریادیں اور دعائیں شامل ہونگے۔ یہ اُن شہداء کے لہو کی آواز ہے جو ماتم کو جشن میں تبدیل کرکے اپنے وطن کیلئے قربان ہو چکے ہیں۔ اس مشن میں اُن ماؤں کے لختِ جگر شامل ہیں جو فدائین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایسے عظیم الشان انسان ہیں جو اپنے خون سے سرزمین کو گلستان بناتے ہیں اور بارود کی آواز سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں، اور دربارِ خداوندی میں اپنی ازیتوں کی وکالت پیش کرتے ہیں۔ شاری، سمیعہ، ماہل سمیت وطن کے یہ شہزادے اپنی داستان عمل کے ذریعے اپنے پروردگار کو سُناتے ہیں۔
اُستاد وہ آواز ہیں جن میں لاتعداد سرمچاروں کی پکار گونجتی ہے؛ ماؤں کے لختِ جگروں کے خون کی آواز اس میں زندہ و جاوید ہے؛ زندان میں مقید اپنے بچوں کے درد میں سسکتی اور تڑپتی ماؤں کی پکار اُن کے آواز کی گرج میں گونجتی ہے۔ ان کی خدمات پر ہزاریں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ وہ ایک گونج، ایک زور دار و پُر زور آواز کی سِنگ بنیاد رکھنے والے عظیم رہنما ہیں۔
استاد اسلم کے کاروان کو روکنا اُس پاکستانی ریاست کے بس کی بات نہیں جو کب کا ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن چند نادان برادران، کچھ عیاش جرنیل بھاگنے کا راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنا اور ہمارا ٹائم برباد کر رہے ہیں۔ ختم ہونا اُن کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے چند نادان بھائی جو زاتی لالچ میں دن بہ دن ڈوبتے جا رہے ہیں، وہ اب بلیک لسٹ ہو چکے ہیں اور جلد یا بدیر مٹتے مٹتے مٹ جائیں گے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر وہ طاقت جس نے بلوچ سے دشمنی موڈ لی، تو بلوچ نے اُسے جلا کر راکھ کردی۔ کیونکہ بلوچ وہ آگ ہے جو خود صفحۂ ہستی سے نہیں مٹتا، بلکہ مٹاتا ہے۔ وہ ہزاروں سالوں سے بہادری کا تاج اپنے سر پہ رکھا ہوا عظیم قوم ہے۔ اُستاد اسلم اسی آگ کا تسلسل ہیں جو ایک پُر زور آواز کی مانند گونجتے ہیں۔
آخر میں اپنے نادان بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اگر وہ دوست نہیں بن سکتے، تو دشمن نہ بنیں، کیونکہ یہ مشن اپنے آخری انجام پر ہر حال میں پہنچے گی اور کامیاب ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔