کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

53

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ کو آج 15 سال ، 6 مہینے اور 21 دن مکمل ہوگئے۔

تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ وی بی ایم پی جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور زیرحراست ، ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے۔سال کے آخری دن پروم پنجگور سے تعلق رکھنے والے لالا نور محمد ، غازی ، اللہ داد اور دیگر نے کیمپ آکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔

انھوں نے کہا کہ سال کا سورج غروب ہوا چاہتا ہے ، ہر قوم اور ہر ملک اپنے بدترین ایام کو نئے سال میں بہترین بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتے اور نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ریاست پاکستان نے ہمارے تمام حقوق سلب کرکے ہم پر جبر کا نظام مسلط کیا ہے۔ ہم شہری حقوق اور بہتر مستقبل کے منصوبہ بندیوں میں حصہ دار ہونے کی بجائے آج صرف اپنے جبری لاپتہ عزیزوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے بھی وفود کے ساتھ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ انھیں آگاہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی ، زیرحراست افراد کا قتل اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے باوجود بلوچستان کی حکومت بڑے دعوے کرتی ہے۔رواں سال جو اب ختم ہو رہا ہے پچھلے سال سے بدترین تھا اور ہر دن بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے دعوی شاید اسلام آباد میں میڈیا اور عوام کو گمراہ کریں لیکن یہ دعوے بلوچ قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان جھوٹے دعوؤں سے حقائق تبدیل ہوں گے۔

ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ کیمپ میں ایک نامعلوم عورت نے ہنگامہ آرائی کی اور توڑ پھوڑ کیا۔

ماما قدیر بلوچ نے میڈیا کو بتایا پورے سال وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور 30 دسمبر سال کے آخری دن بھی ریاستی پے رول پر کام کرنے والی ایک خاتون کو ہمارے احتجاجی کیمپ کو سبوتاژ کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔اس نے یہاں آکر ہنگامہ آرائی کی ، جبری لاپتہ افراد کی تصاویر پھاڑے ، توڑ پھوڑ کی، کیمپ میں بیٹھے خواتین اور مردوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور جھگڑے کا ماحول پیدا کیا۔

انھوں نے کہا کہ یہ طوفان بدتمیزی دیکھ کر اردگرد موجود لوگ حیران ہوئے اور عدالت روڈ پر ایک مجمع اکھٹا ہوگیا۔ پہلے ایک مہینے کے اندر دن اور رات میں چار دفعہ احتجاجی کیمپ کو جلایا گیا اور اب یہ اوچھی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا گوکہ یہ حرکتیں چوری چھپے ، اپنے ایجنٹوں اور خفیہ اہلکاروں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کون کر رہا ہے اور کیوں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ہر بلوچ گھر سے جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں ۔ریاستی فورسز لوگوں کو اغواء کرکے جبری لاپتہ کرنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ اس پر احتجاج کرنا بھی جرم ہے اور اس پر ان کی یہ حرکتیں ہیں کہ مظاہرین پر ڈنڈے برساتے ہیں اور احتجاجی کیمپ جلاتے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا جبری گمشدگیوں کے نتیجے میں مزید احتجاج ہوگا، زیادہ بلند اور واضح آوازیں اٹھیں گی ، انھیں بند کرکے ایک ہی طریقہ ہے کہ جبری گشمدگیوں کا سلسلہ روکا جائے ، کیمپ جلانے سے ، اپنے ایجنٹس بھیج کر ہنگامہ آرائی کرنے سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے، ریاست ہمیں چپ نہیں کراسکتی۔