کوئٹہ: بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

76

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میان کوئٹہ میں جاری جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5654 دن مکمل ہو گئے، نوشکی سے سیاسی و سماجی کارکنان فیض امیر بلوچ، نزیر احمد بلوچ، اور لیاقت بلوچ نے آکر اظہارِ یکجہتی کیا۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین، ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ جبری گمشدگیوں کے خلاف متعدد قراردادیں منظور کر چکا ہے، جن کے تحت جبری گمشدگی کسی بھی صورت انسانی وقار کے خلاف سنگین جرم ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے الزام لگایا کہ پاکستان دنیا کو بلیک میل کرکے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔ پاکستانی خفیہ ادارے روزانہ بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرتے ہیں، دورانِ حراست انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2001 سے اب تک ہزاروں بلوچ شہریوں کو گھروں، بازاروں، مسافر گاڑیوں، اور تعلیمی اداروں سے اغوا کیا گیا ہے، جن میں خواتین، بچے، اور بزرگ بھی شامل ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں اور صرف تشویش اور افسوس کے بیانات تک محدود ہیں۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ 14 سال سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو اقوام متحدہ کی جانب سے مسلسل نظرانداز کرنا خود انسانی حقوق کے چارٹر کے منافی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ خود لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ قوم کے حقیقی نمائندوں سے ملاقات کرے، بجائے پاکستانی کارندوں کی فراہم کردہ غلط معلومات پر بھروسہ کررہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اقوام متحدہ نے عملی اقدامات نہ کیے تو پاکستان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید شدت اختیار کریں گی، جس کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بحران کی تمام تر ذمہ داری اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر عائد ہوگی۔