تربت سے جبری گمشدگی کے شکار نوجوانوں کے اہل خانہ نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے خاندان کے افراد، زمان بلوچ، عبدالحسن، اور الطاف کو ضلع کونسل کیچ کے چیئرمین چیئرمین نے دو دن قبل ریاستی اداروں کے حوالے کیا البتہ الطاف کو گزشتہ رات رہا کیا گیا ہے، لیکن زمان جان اور عبدالحسن کا تاحال کوئی پتہ نہیں اور ہمیں ان تک کسی طرح کی رسائی یا ان کے متعلق معلومات نہیں دی جا رہی ہم ان کی سلامتی کے بارے میں سخت پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے یا کسی جرم کی صورت میں انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ ہمارے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حساب لیا جائے کیونکہ ہمارے خاندان کو مسلسل جبری گمشدگیاں، ہراسانی، دھمکیاں اور جھوٹے الزامات کا سامنا ہے عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ہراسانی اور دھمکیوں کا خاتمہ کیا جائے جب کہ ضلع چیئرمین میر ہوتمان اور دیگر ایجنٹس کے اقدامات کی تحقیقات کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات تین دن کے اندر پورے نہ کیے گئے، تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہم مختلف مقامات پر دھرنے دیں گے اور اہم سڑکوں کو بلاک کریں گے۔
ہم اپیل کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں و سیاسی جماعتیں اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ عدلیہ ہمارے کیس کا نوٹس لے اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائے اعلیٰ حکام مداخلت کریں اور ہمارے خاندان کے افراد کو مزید نقصان سے بچائیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہماری اپیل کو سنجیدگی سے لیں گے اور ہمارے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلسل روا رکھے جانے والے اس ناروا سلوک کے منفی اثرات میں نفسیاتی دباؤ، ذہنی تھکن، پی ٹی ایس ڈی اور دیگر قسم کے نقصانات شامل ہیں ہم ان کا کافی عرصہ سے سامنا کررہے ہیں جبری گمشدگی ایک جرم ہے، اور کسی شخص کو بار بار جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کا مقصد اس کو نفسیاتی طور پر تہس نہس کرنا ہوتا ہے۔ہمارے خاندان کے کئی افراد جبری گمشدگی کا شکار رہے ہیں، جن میں سے کچھ بازیاب ہوئے ہیں لیکن وہ مختلف جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں، جبکہ ایک نے اپنی جان لے لی۔ہمارے خاندان کے ایک رکن، چاکر مجید، کو دو بار جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد وہ شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
اسی طرح زمان بلوچ بھی دو بار جبری گمشدگی کا شکار رہ چکے ہیں، عبدالحسن کے ساتھ یہ تیسری بار ہے کہ انہیں ان کے داماد اور کزن الطاف کے ساتھ غائب کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار اغوا کا طریقہ مختلف تھا ڈسٹرکٹ کونسل کیچ کے چیئرمین نے انہیں اپنے پاس بلا کر سرکاری اداروں کے حوالے کیا اور خاندان کو شدید نفسیاتی دباؤ کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والی نفسیاتی ہراسانی کے خلاف آئینی جنگ لڑیں گے اور اس جرم میں ملوث تمام افراد کے خلاف عدلیہ سے رجوع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تین دن پہلے ہمارے خاندان کے تین افراد زمان ولد سپاہان، الطاف ولد بہرام، اور عبدالحسن ولد رحمت کو ضلع چیئرمین تربت نے 12 گھنٹوں تک یرغمال بنایا جس کے بعد انہیں ریاستی اداروں کے حوالے کر دیا گیا۔
ہم ضلع چیئرمین کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آئینی اور قانونی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔ ضلع چیئرمین تربت ہمارے خاندان کے مردوں کی جبری گمشدگی کے برابر ذمہ دار ہیں اور مسلسل انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں اور ہراساں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے خاندان کے افراد کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں ہم مسلسل ظلم، ہراسانی اور جبری گمشدگیوں سے تھک چکے ہیں لیکن اب ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں، عدلیہ، اور اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ زمان بلوچ اور عبدالحسن کی بازیابی کے لیے ہماری آئینی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔