افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ، اسلامی امارت افغانستان کی سرحدی علاقوں میں بھاری اسلحہ تعینات کردیا گیا۔
افغانستان کے طالبان حکومت نے گزشتہ روز پاکستان کے فضائی حملوں کے خلاف اپنے ردعمل میں سرحدی علاقوں میں بھاری اسلحہ تعینات کرنے کا اعلان کیا، یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب افغانستان کے وزیر دفاع، مولوی محمد یعقوب مجاہد نے پاکستان کو خبردار کیا کہ افغانستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
پاکستانی فوج نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین تھے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
افغان وزارت دفاع کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے اور اسے افغانستان کی خودمختاری پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے حملے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
افغان حکومت نے اس حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس “بزدلانہ کارروائی” کا جواب دیا جائے گا۔ اس دوران افغانستان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے اس مبینہ حملے کے بارے میں ٹویٹس کیں، جنہیں وزارت دفاع کے آفیشل اکاونٹ سے بھی شیئر کیا گیا۔
پاکستانی حکام کی جانب سے فی الحال اس حملے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔ پاکستانی دفتر خارجہ یا آئی ایس پی آر نے اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
ماضی میں فضائی حملے اور دوطرفہ کشیدگی
یاد رہے کہ مارچ 2024 میں بھی افغان طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کے پکتیکا اور خوست علاقوں میں بمباری کی تھی، جس میں افغان شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
اس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے وضاحت پیش کی تھی کہ یہ کارروائی حافظ گل بہادر گروپ کے دہشتگردوں کے خلاف تھی تاہم، افغان حکومت نے اس کارروائی میں پانچ خواتین اور تین بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر موجود شدت پسند گروہ، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، پاکستان کے خلاف حملے کر رہے ہیں اور افغان حکومت ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت کو بار بار اس مسئلے پر تحفظات سے آگاہ کر چکے ہیں، مگر طالبان حکومت نے اس پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جولائی 2024 میں برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا اور ضرورت پڑنے پر افغانستان کے اندر موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔