ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح پاکستان دور مار میزائلوں کی ایسی صلاحیت حاصل کر رہا ہے جو آخرِ کار اسے اس قابل بنا دے گی کہ وہ جنوبی ایشیا سے باہر بشمول امریکہ کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکے گا، یہ بات امریکہ کے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جون فائنر نے جمعرات کے روز کہی ہے۔
امریکہ کے اتحادی رہنے والے ملک کے بارے میں اپنے اس حیران کن انکشاف میں وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے کہا کہ اسلام آباد کے رویے سے اس بارے میں حقیقی معنوں میں سوالات پیدا ہوئے کہ اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کیا ہیں۔
جان فائنر نے یہ تقریر ایسے موقع پر کی ہے جب ایک روز قبل ہی امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک ایک ریاستی ادارے سمیت کئی اداروں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔
فائنر نے واشنگٹن میں کارنیگی انڈاؤمنٹ فار پیس انسٹی ٹیوٹ میں حاضرین سے خطاب میں کہا، “کھلے طور پر کہوں گا کہ ہمارے لیے پاکستان کی سرگرمیوں کا مشاہدہ اس طور کے سوا مشکل ہے کہ وہ امریکہ کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔”
انہوں نے کہا، “پاکستان نے انتہائی جدید میزائیل ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جس کے تحت وہ دور تک مار کرنے والے میزائل سسٹم سے لے کر دیگر آلات تک بنا سکتا ہے جس سے وہ بڑی راکٹ موٹرز کے تجربے کا اہل ہو جائے گا۔”
امریکہ کے ڈپٹی نیشنل سکیوٹی ایڈوائزرنے کہا، اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستان یہ صلاحیت حاصل کر لے گا کہ وہ جنوبی ایشیا سے باہر کافی دور تک بشمول امریکہ کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکے۔
جون فائنر نے یہ تقریر ایسے موقع پر کی ہے جب ایک روز قبل ہی امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک ایک ریاستی ادارے سمیت کئی اداروں پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔
اس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ امریکی کارروائی بد قسمت اور جانب دارانہ ہے اور یہ فوجی عدم توازن میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے علاقائی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔
پاکستان نے کمرشل اداروں پر پابندیوں کے نفاذ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ماضی میں کمرشل اداروں کی فہرستیں محض شبہات اور شک کی بنیاد پر بغیر کسی ثبوت کے بنائی گئی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا تھاکہ یہ اقدامات نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلکس اور تین کمپنیوں پر ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت عائد کیے گئے ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو ہدف بناتے ہیں۔