پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں اسلام آباد میں پاکستانی فوج کی 74ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں تمام صوبوں کے کور کمانڈرز اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران پاکستان بھر میں سیکیورٹی مسائل اور پی ٹی آئی کے مظاہروں پر گفتگو کی گئی۔
اجلاس کے حوالے سے اطلاعات فراہم کرتے ہوئے پاکستانی صحافیوں کے مطابق، کانفرنس میں بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز کا بغور جائزہ لیا گیا، اس موقع پر جنرل عاصم منیر نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کے مجید بریگیڈ ونگ کے خلاف مؤثر کارروائیوں کا حکم دیا اور متعلقہ رپورٹس طلب کیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں رواں سال بی ایل اے کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر حکومت اور فوج نے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا تھا، یہ آپریشنز خاص طور پر سی پیک منصوبوں سے وابستہ چینی شہریوں اور فوجی تنصیبات پر حملے روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ فیصلے کے بعد بلوچستان کے علاقوں نوشکی، قلات، کوہلو، کاہان، کیچ اور آوران میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں، اور مزید دیگر علاقوں میں فوج کی بھاری نقل و حرکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
دوسری جانب آپریشن کے دوران پاکستانی فورسز نے متعدد مسلح جھڑپوں اور ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، جبکہ اس دؤران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے فوجی آپریشن کے دؤران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد جبری گمشدگیوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
مزید براں بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر بلوچ آزادی پسند گروپوں کے خلاف آپریشن کے باوجود مسلح کارروائیاں جاری ہیں مذکورہ تنظیمیں اپنی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہیں۔
اس سلسلے کے گذشتہ ماہ نومبر میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے بلوچستان بھر میں کاروائیاں کی گئی جن میں کوئٹہ میں پاکستان فوج کے افسران پر “فدائی” حملہ، قلات میں پاکستان فوج کے مرکزی کیمپ کو قبضے میں لینا شامل ہے۔
مزید برآں بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد براس نے ایک دن میں 45 حملے کیے، جن میں زیارت کے قریب پاکستانی فوج کے ایک میجر کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان آپریشنز کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنانے اور جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ریاست سے سیاسی حل نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔