جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا کا طویل ترین احتجاجی کیمپ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جاری ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہے۔
احتجاجی کیمپ آج 5681 ویں روز جاری رہا، اس موقع پر سیاسی و سماجی کارکنان شکر خان، نورمحمد اور خواتین سمیت وکلا نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہوئے وفود نے کہا کسی بھی معاشرے میں انصاف کا ہونا بے حد ضروری ہے انصاف کی غیرموجودگی میں معاشرہ انتشار کی طرف جاتا ہے۔ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی بلوچستان میں انصاف کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم ہوگا ، اس لیے ریاست پاکستان کو فوری طور پر لاپتہ افراد بازیاب کرنے چاہئیں۔
وفود سے گفتگو کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگی کو پاکستانی فورسز ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ جبری گمشدگی سے ہر طبقہ متاثر ہے یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کو بھی بلوچستان میں جبری لاپتہ کیا جاتا ہے۔گذشتہ دنوں پنجگور سے 13 سال کے بالاچ ولد صبراللہ کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے ، روزانہ درجنوں لوگ جبری لاپتہ کیے جا رہے ہیں۔
ماما قدیر نے انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت بلوچستان پر بھی شدید تنقید کی ، انھوں نے کہا بلوچستان میں اپوزیشن کا وجود غائب ہے اور حکومت بلوچستان کے معاملات سے غیرمتعلق ہے۔
انھوں نے کہا اگر اقوام متحدہ انسانی حقوق کے معاملے پر دیگر ممالک میں مداخلت کرسکتی ہے ، تو بلوچستان میں کیوں نہیں ؟ ، یہاں کی حکومت اور عدالت نے بلوچ کو سننا بند کیا ہے اور ریاست مظالم ڈھا رہی ہے ، ان حالات میں بین الاقوامی مداخلت ضروری ہے۔