نیشنل پارٹی کا دورہ چین: غداری اور لوٹ مار کے معاہدے (حصہ اول)
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی پارٹی یا ادارے کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے ہمارے نزدیک یہ ایک ہمہ جہت عمل ہوتا ہے۔ ہمیں ان کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے، پارٹی کی بنیادی پہچان یا شناخت ان کے نام سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک فوکل پوائنٹ ہے جو پارٹی کے مقاصد اور پالیسیوں کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی مرکزی پالیسیاں، موقف، اور مجموعی طور پر پارٹی کے کردار اور قیادتی رویے کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ اپنی باڈی لینگویج، لب و لہجہ، اور بیانات سے کیا ظاہر کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان کے پس پردہ یا کھلے عام تعلقات اور لائحہ عمل کو سمجھنا ضروری ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کا منشور یا مینفیسٹو کیا ہے۔
اس مختصر پس منظر میں، اگر “نیشنل پارٹی” کے لفظ پر کچھ لکھنا یا بولنا پڑے تو یہ واضح ہے کہ یہ لفظ خود میں مبہم ہے۔ “نیشنل” صرف قوم کا چربہ لگا کر یہ کس قوم کی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ اپنے نام میں ہی ابہام کا شکار ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بلوچ قوم دوست پارٹی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قوم دوست یا وطن دوست کردار ہے۔ بلکہ بلوچ فرزندوں کے قتل عام میں یہ بالواسطہ یا براہ راست ذمہ دار ہے۔ ان کا کردار پاکستانی ریاست کی آلہ کاری اور دست راستی میں رہا ہے۔ بلوچ نیشنلزم یا بلوچ قومی سوال کے تناظر میں ان کا کوئی تاریخی، سیاسی، سماجی، اخلاقی یا تحریکی کردار نہیں ہے جو بلوچ قومی آزادی کے مطالبہ پر مبنی ہو۔ بلکہ یہ ہمیشہ بلوچ قومی مطالبہ سے متصادم رہے ہیں۔
“نیشنل” بذات خود کوئی واضح شناخت نہیں جب تک اسے قومی پہچان سے مشروط نہ کیا جائے۔ یہ کس قوم کی نمائندگی کرتا ہے؟ امریکی، افریقی، روسی یا عرب قوم؟ یا یہ اس خطے سے منسلک اقوام، جیسے بلوچ، پختون یا سندھی قوم کی نمائندگی کرتا ہے؟ ان کی نمائندگی کا کوئی مرکز نہیں ہے۔ بلکہ یہ کھوکھلے “نیشنل” میں رہ کر صرف پاکستانی ریاست کے دھارے میں اپنی شناخت کو بلوچ تحریک کی طاقت اور ابھار کے ذریعے کم فلج کردیا ہے۔ ان کی جڑیں صرف نوآبادیاتی قوتوں میں پیوست ہیں اور یہ ایک پیٹی ایجنٹ یا پیٹی بورژوا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے پرچم پر چار ستاروں کی علامت بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ بلوچ نیشنلزم پر مرکوز نہیں ہیں، بلکہ یہ پاکستانی شناخت کے دائرے میں رہ کر اور علی الاعلان بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد سے منحرف ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ان کی پارٹی پالیسیاں اور بیانیہ ان کے تاریخی ارتقاء سے ظاہر کرتی ہیں کہ یہ بلوچ پارٹی نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ قومی مقاصد کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ بلکہ ان کے تاسیسی دن سے لے کر اب تک ان کا کردار پاکستانی ریاست کے آلہ کار کا رہا ہے۔ یہ ریاستی مقاصد کے لیے ابھری اور جنم پزیر ہوئی، اور شروع سے ہی اس کا کردار پاکستانی ریاست کی بی ٹیم کا رہا ہے۔
اسی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں ریاستی ڈیتھ سکواڈ کی تشکیل اور سرپرستی ہوئی۔ ڈاکٹر مالک اور شفیق کے پس پردہ اور علانیہ تعلقات بے نقاب ہوتے ہیں۔ مکران اور آواران میں ان کی پارٹی کے تعلق دار اور ممبرشپ کا ڈیتھ سکواڈ سے براہ راست تعلق نکلتا ہے۔
ڈاکٹر مالک اور جنجوعہ کے تعلقات اور مہربانیوں کے راز کوئی پراسرار بات نہیں ہیں۔ یہ ایک لالچ پر مبنی تعلق تھا، جس کا مقصد بلوچ وطن پر تسلط اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار تھا۔ اس کے درمیان دونوں فریقین کے مفادات مشترک تھے۔ توتک میں بلوچ فرزندوں کے اجتماعی قبروں کا سہرا مالک حکومت کو جاتا ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک کے معاہدے ان کے دور میں سب سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ریکوڈک اور سیندھک کو ان کے دور میں ان کی ہمراہی میں بیچا جاتا ہے۔
2013 میں ڈاکٹر مالک وزارتِ اعلیٰ کا منصب بلوچ شہداء کے خون پر حاصل کرتے ہیں۔ یہ تاریخ کے صفحات سے کبھی حذف نہیں ہو سکتی کہ اسی مالک کے دور میں آواران، مشکے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں اور آبادیوں پر ٹنوں بموں سے بمبارمنٹ کی جاتی ہے، اور پوری کی پوری آبادیوں کو ترک وطن کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی حکومت میں گوادر پورٹ کی ریونیو میں حصہ داری کے مطالبات سامنے آتے ہیں۔ دوسری طرف بلوچ قومی قوتیں گوادر پورٹ کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کی مخالفت کرتی ہیں، جو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف ہیں، اور یہ اعلان کرتی ہیں کہ نوآبادیاتی طاقتیں کبھی بھی اپنے نوآبادی کو ترقی نہیں دیتیں، بلکہ ترقی کے نام پر ان کا استحصال کرتی ہیں۔
اس بیانیے اور جدوجہد کے باوجود ڈاکٹر مالک اور ان کی پارٹی ان استحصالی اور نوآبادیاتی منصوبوں کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔