نومبر میں بی ایل اے کے بارہ حملوں پینتالیس ہلاک ہوئے۔ پپس رپورٹ

416

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے گزشتہ ماہ 12 حملے کیے، ان حملوں میں 45 افراد ہلاک ہوئے۔

بی ایل اے کے حملوں کی تعداد اور شدت میں یہ اضافہ گروپ کی آپریشنل حکمت عملی اور صلاحیتوں میں ایک اہم ارتقا کی عکاسی کرتا ہے، اس بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستانی ریاست کی طرف سے اپنے نقطہ نظر میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔

ان تفصیلات کا انکشاف اسلام آباد کے تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پِپس) نے اپنے ’ماہانہ سیکیورٹی ریویو آف پاکستان‘ میں کیا۔

بلوچستان میں 19 واقعات پیش آئے جن کے نتیجے میں 55 افراد ہلاک اور 130 زخمی ہوئے۔

ان میں سے زیادہ تر اموات (تقریباً 91 فیصد) تین بڑے یا زیادہ اثر والے حملوں کے نتیجے میں ہوئیں جن میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن، مستونگ میں پولیس وین اور قلات میں ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے شامل ہیں جن میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔

خیال رہے چھ نومبر صبح بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے ایک فدائی حملے میں انفنٹری اسکول سے کورس مکمل کرکے واپس جانے والے پاکستان فوج کے نان کمیشند افسروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ سولہ نومبر کو قلات پاکستانی فوج کے چوکی پر ہونے والے حملے میں کم از کم دس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کیا ہے۔