نفسیاتی جنگ
تحریر۔ اَلبرز
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کے کسی بھی جنگ یا جنگ آزادی کو دیکھا جائے یا کسی بھی قومی تحریک کو اُٹھا کر دیکھیں تو اس قومی جنگ میں ہمیں یہ دیکھنے کو ضرور ملتا ہے کہ قومیں مرنے اور مارنے سے ختم نہیں ہوتے بلکہ قومیں اُس دن ختم ہوتے ہیں جب کوئی ایک نفسیاتی حوالے سے شکست کھائے ۔
اگر آج ہم بلوچ قومی تحریک دیکھیں تو آج کے اس دور میں بلوچ جہدکاروں کے نہ تھکنے والی مزاحمتوں نے دشمن اور اس کے ریاستی آلہ کاروں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ آج بلوچ سرمچاروں نے اپنی نئی جنگی حکمت عملی سے ریاست اور اسٹیبلیشمنٹ کی کمر توڑ دی ہے ۔
اس سے پہلے بلوچ سرمچاروں کے جنگی کاروائیوں اور دشمن کے کیمپوں اور مورچوں کا صفایا کرنے سے لیکر ھیروف جیسے حملے کر کے یہ واضح کیا ، بلوچ جہدکاروں نے ایک ہی دن ایک ہی وقت زیادہ جگہوں پر دشمن اور اس کے پیادوں کا منہ توڑ جواب دیا اور اس کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ فوج اپنی قوم اپنی سرڈگار اور زمینی سیمسر کی حفاظت خود کر سکتا ہے ۔
ٹریک ٹو ٹریک ڈپلومیسی نے آج دشمن اور عالمی سطح پر بھی واضح کر دیا کہ بلوچ جہدکاروں کی حکمت عملی اور ٹریک ٹو ٹریک کاروائی سے برق رفتاری و کراچی انٹرنشنل ائیرپورٹ پر بلوچ سرمچاروں کے فدائی اٹیک نے دشمن حکمت عملی دشمن کی جنگی طریقہ کار کو ایک دم پس پشت ڈال کر دشمن کو نفسیاتی شکست سے دوچار کیا ہے ۔
بلوچ قومی تحریک آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کے بلوچ جھد کاروں کے پاس جنگی رپک ءُ ہنر اور نئی طریقہ کار حکمت عملی سے لے کر قومی انٹیلیجنس زراب موجود ہے جو دشمن کے انٹیلیجنس سے دس گناہ تیز اور چالاک ہے جس نے دشمن کو آج اتنا مجبور کیا ہے دشمن خود کبھی ایک طریقے سے بات کرنا چاہتا ہے کبھی مزاکرات کے نام سے تو کبھی کسی اور نام سے یہ دشمن کی نفسیاتی شکست ہے کیوں کہ مزاکرات ہر وقت ٹکر کے لوگوں سے کرتے ہیں یا دو پاور کے درمیان ہوتا ہے یا دو ریاست کے درمیان ہوتا ہے ۔
آج بلوچ تنظیمیں اس قدر مضبوط پاور فل ہیں کہ بلوچوں کی جنگ آج پاکستان سے نہیں کیوں کہ پاکستان کو تو بلوچ جھدکاروں نے 2018 میں شکست دیا تھا پاکستان تو بھاگنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے ۔
“ایک مشہور جنگی کہاوت ہے ہاری ہوئی جنگ کو جیتنے کے لیے دشمن کہ حکمت عملی کہ بارے میں جانا ضروری ہے “
آج بلوچ اور بلوچ جہدکار دشمن نفسیات سے بخوبی واقف ہیں کہ دشمن کیا ہے کیا چال بازی کر سکتا ہے اور بلوچ جہد ءِ مُسلسل کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے آج بلوچ قوم دشمن کی نظریات اور نفسیات سے آگاہ ہے اور اس سے لڑنے کے لیے تیار ہے جو اس کی سب سے بڑی نفسیاتی شکست کی وجہ ہے ۔
علاوہ ازیں “راجی مُچّی“ نے یہ ثابت کیا ہے کے بلوچ عوام دشمن کے خوف و ہراس سے بالاتر ہے کیوں کہ بلوچ قومی تحریک کا سب سے بڑا اور مضبوط شعور سے لیس مُچی تھا جو دشمن کے خلاف پورے بلوچستان میں آگ کی طرح پھیل گیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج کے اس دور میں بلوچ قوم نے دشمن کے سامنے جنگ کا اعلان کر دیا ہے جو دشمن کی نفسیاتی شکست ہے اور بلوچ قومی تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
جنگیں ہمشہ انسان کو تھکا دیتی ہیں مگر جب بات زمین کی ہو زبان کی ہو یا قومی اسٹکچر کی ہو تو وہ جنگ جنگ نہیں بلکہ ایک عبادت بن جاتی ہے عبادت پھر ایمان اور پکا ارادوں اور قومی شعور اور قومی غلامی کی تپش میں خود کو ڈھونڈے کا نام ہے تب آپ غلامی کی سوچ اور غلامی کے زنجیروں کو توڑ کر اس ظالم نظام سے خود کو اور اپنی زمینی اسٹکچر اور قومی بقاء کو بچا سکتے ہو ۔
بلوچ قومی جنگ آج قلم اور شعور کی ٹکراو کا نام ہے کیوں کہ جب قلم اور شعور دونوں کا ملاپ ہوتا ہے تو اس میں ایک نومولود بندوق پیدا ہوتا ہے جو آپ کی جنگ کو شعوری نظریہ ترقی دیتا ہے جو آپ کی قوم میں شعور کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے جو عام لوگوں کو جنگ کی طرف راغب کرتا ہے ان میں غلامی کی سوچ کو ایندھن دے کر پروان چڑھاتا ہے اور ظالم کے ظلم اور غیر انسانی رویے کے خلاف جنگ کا علان کرتا ہے ۔
بلوچ قوم نے آج جنگ کو شعوری طور پر اپنا لیا ہے اور قومی بقاء کے خاطر اپنے جانوں کا نذرانہ دے کر خود کو بارود میں لپیٹ کر زمین کے لیے قربان کر رہے ہیں جو دشمن کے لیے وبال جان ہے اور دشمن کی نفسیاتی شکست ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں